1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی: کون کون ساتھ ہے، کون کون چھوڑ گیا؟

20 نومبر 2023

پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنے والی نمایاں شخصیات کی تعداد دو سو سے زائد ہو گئی ہے ان میں سابق وزراء، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، پارٹی ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی عہدیداران بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ZAnl
Pakistan | Protest gegen die Verhaftung von Imran Khan
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے والوں میں تازہ ترین مثال پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما علی نواز اعوان اور آصف نکئی کی ہے، جنہوں نے ایک روز قبل پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ایک عرصے بعد منظر عام پر آنے والے سابق وفاقی وزیر علی نواز اعوان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ انہیں نو نومبر کو مانسہرہ سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔

عمران کی مزید مقدمات میں گرفتاری، مقاصد کیا ہیں؟

پاکستان میں’سیاسی ڈیل کلچر‘ کا فروغ اور دم توڑتی جمہوریت

پارٹی چھوڑنے والوں کی لسٹ لمبی ہے

پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی لست بہت لمبی ہے لیکن تجزیہ کار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ انہیں اسد عمر کے پارٹی چھوڑ دینے پر اس لیے حیرت ہوئی ہے کہ انہیں اس جماعت میں عمران خان کا جانشین سمجھا جا رہا تھا۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی وابستگی نہیں رکھ پائے، ان میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ سیاسی شخصیات جو ہوا کا رخ دیکھ کر چلنے کو ترجیح دیتی ہیں دوسری وہ شخصیات جو نو مئی کے واقعات کے بعد دباؤ برداشت نہیں کر سکیں۔

جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے ان میں شیریں مزاری، فواد چوہدری، اسد عمر، عامر کیانی، فیاض الحسن چوہان، مسرت جمشید چیمہ، جمشید چیمہ، ملک امین اسلم، غلام سرور خان، علی زیدی، عمران اسماعیل، خسرو بختیار، عندلیب عباس، عثمان ڈار، مراد راس، نعمان لنگڑیال، عون چوہدری،فرخ حبیب ، ملیکہ بخاری اور راجہ ریاض جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ علیم خان، جہانگیر ترین تو پہلے ہی عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر چکے تھے۔

Pakistan Blick auf das Gebäude von Radio Pakistan nach einem Angriff
عمران خان کی گرفتاری پر نو مئی کو ملک کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیاں دیکھی گئی تھیںتصویر: PPI via ZUMA Press Wire/picture alliance

کچھ لوگوں نے یہ فیصلہ مجبوراﹰ کیا؟

بعض جانے والوں کی حالت ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ پارٹی چھوڑ کر باہر چلے جانے والے ایک نظریاتی کارکن فرخ حبیب کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہوں نے باہر جا کر عمران خان سے باالواسطہ رابطہ کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرنے والی ملیکہ بخاری نے اپنے اعلان کردہ فیصلے کے بعد عمران خان کے لاہور ہائی کورٹ کے کمرہ عدالت میں دیکھا تو وہ اپنے آنسووں پر قابو نہ رکھ سکیں۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والی ایک اور رہنما مسرت جمشید چیمہ نے بتایا تھا کہ انہیں پارٹی چھوڑنے کے باوجود غیر جانب دار اورغیر سیاسی رہنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ برگیڈئیر (ر)اعجاز شاہ اور شفقت محمود سمیت کئی لوگ گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں اور ان کے انتخاب میں حصہ لینے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے ایک قریبی عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عثمان بزدار کے خلاف پولیس کے چھاپوں اور انتقامی حربوں کی وجہ سے ان کی والدہ بہت پریشان تھیں اس لیے ان کے کہنے پر انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ '' اگر آپ مجھ سے سچ جاننا چاہیں تو حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پارٹی چھوڑی ہے اور نہ ہی وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں‘‘۔

وہ لوگ جو ابھی تک عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں ان میں حامد خان، شعیب شاہین، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید، شہزاد وسیم، زرقا تیمور، صنم جاوید، زلفی بخاری، اعظم سواتی، رؤف حسن، علی محمد خان، عامر ڈوگر، میاں اسلم اقبال، زبیر نیازی، سبطین خان، قاسم سوری، شاہ فرمان، علی امین گنڈاپور، اور حلیم عادل شیخ جیسی شخصیات شامل ہیں۔

لوگ پی ٹی آئی کیو ں چھوڑ رہے ہیں؟

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین نے بتایا کہ پاکستان میں پارٹیاں چھڑوانے اور نئی پارٹیوں بنوانے کی تاریخ پرانی ہے ہم نے اپنی تاریخ میں جونیجو لیگ سے نون لیگ بنتے پھر قاف لیگ اور پیپلز پارٹی پٹریاٹ بنتے بھی دیکھی ہے۔'' آج پھر ظلم، جبر اور بربریت کے ساتھ لوگوں کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے قانون کے نظام نے بھی دوہرا میعار اپنا رکھا ہےخدیجہ شاہ اور عندلیب عباس ایک گاڑی میں سوار ہر کر پی ٹی آئی کے ایک احتجاجی مظاہرے میں جاتی ہیں۔ عندلیب نے سمجھوتا کر لیا وہ آزاد ہے جبکہ خدیجہ شاہ کو بہت سی ضمانتیں مل جاتی ہیں اور اس کو رہائی نہیں ملتی نئے کیسز بن جاتے ہیں۔‘‘

’’ہم اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف نہیں ہیں لیکن ہم اس کے کردار کا ازسر نو تعین کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کا نظام ہے اگر ہمیں چار لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں تو چار اور لوگوں کو حوصلہ اور استقامت بھی مل رہی ہے۔ شخصیات اہم نہیں لیکن نظریات اہم ہوتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے نظریات کو عوام میں قبولیت مل گئی ہے اور آنے والے الیکشن میں اگر پی ٹی آئی کا راستہ روکا گیا تو ان انتخابات کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہے گی۔‘‘

کیا پی ٹی آئی کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے؟

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار حبیب اکرم نے بتایا کہ پاکستانی سیاست میں یہ ایک اچھی بات دیکھی جا رہی ہے کہ کچھ لوگ نگران حکومت کی سختیوں، اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور قیدو بند کی صعوبتوں کے باوجود اپنے سیاسی نظرات کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کے بقول ماضی میں حکومتیں ہٹائی جاتی تھیں تو وہ عوام میں بہت غیر مقبول ہوتی تھیں لیکن اب الٹ ہوگیا کہ عمران حکومت ہٹائے جانے کے بعد اس کی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا۔ ماضی میں سختیوں پر لیڈر ملک چھوڑ جاتے تھے، نواز شریف اور بےنظیر نے بھی ایسا کیا تھا لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک لیڈر باہر جانے سے انکاری ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو کمزور سمجھا جاتا تھا صنم جاوید اور اس کی ساتھیوں نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ عمران کو لیڈرز چھوڑ رہے ہیں لیکن اس کا ووٹ بنک ابھی بھی موجود ہے اور صورت حال 'عمران بمقابلہ باقی ساری جماعتیں‘ جیسی دکھائی دے رہی ہے۔

Pakistan Asad Umar
اسد عمر تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیںتصویر: PPI/ZUMA Press Wire/picture alliance

تجزیہ کار خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ عام طور پر لوگ غیر مقبول پارٹی کو چھوڑتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کو لوگ اس وقت چھوڑ کر جا رہے ہیں جب یہ اپنی مقبولیت کی انتہا پر ہے۔ ان کے بقول عمران حکومت جانے کے بعد بھی پی ٹی آئی نہیں ٹوٹی تھی بلکہ اس کی مقبولیت بڑھی اور یہ مضبوط ہوئی تھی۔ لیکن نو مئی کے بعد پی ٹی آئی اس لیے بکھرنا شروع ہوئی کہ اس طرح کا سنگین واقعہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔اسے ایک باغی اور ریاست کو چیلنج کرنے والی جماعت کے طور پر دیکھا گیا۔''مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی مستقبل قریب میں دوبارہ پرانی شکل میں بحال ہو سکے گی‘‘۔

 پرویز الہی اور شاہ محمود قریشی نے پارٹی کیوں نہیں چھوڑی؟

حبیب اکرم کہتے ہیں کہ کیا یہ بات اہم نہیں کہ پرویز الہی اور شاہ محمود قریشی جیسی شخصیات (جن کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں) وہ بھی ثابت قدمی دکھا رہی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ ہو سکتا ہے کہ ایسی شخصیات ''ڈیوٹی‘‘ پر ہوں تاکہ عمران خان کے نا اہل ہونے کے بعد پارٹی پر قابض ہو سکیں۔ خالد فاروقی نے بتایا کہ پرویز الہی اور شاہ محمود قریشی کی استقامت  کی ایک وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے اب قابل قبول نہیں رہے اور ان کے پاس واحد راستہ یہی بچا ہے۔

کیا پی ٹی آئی دوبارہ میدان میں آ سکے گی؟   

حبیب اکرم کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ جو اسٹیبلشمنٹ اتنا کچھ ہونے کے بعد نون لیگ سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہو گئی ہے کیا عجب مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کے تعلقات میں دراڑ آنے پر اسے پھر پی ٹی آئی کی یاد ستانے لگے۔ ویسے بھی عمران خان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ تجزیہ کار خالد فاروقی کے بقول پی ٹی آئی کے میڈیا کی یہ ایک کامیابی ہے کہ اس نے اس کے کارکنوں کی امید کو ابھی تک ٹوٹنے نہیں دیا۔ لیکن مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔