1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور مسجد حملے میں ہلاکتیں پچاس سے زائد، دو سو کے قریب زخمی

فریداللہ خان، پشاور
4 مارچ 2022

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد کے اندر کیے گئے خود کش بم حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم بھی چھپن ہو گئی ہے۔ اس بم دھماکے میں دو سو کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے۔

https://p.dw.com/p/481nJ
یہ خود کش بم حملہ پشاور شہر کے کوچہ رسالدار نامی علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک جامعہ مسجد میں کیا گیاتصویر: Muhammad Sajjad/AP/picture alliance

یہ خود کش بم حملہ آج چار مارچ کے روز اس مسجد میں جمعے کی نماز کے دوران کیا گیا، جب یہ بڑی عبادت گاہ نمازیوں سے تقریباﹰ بھری ہوئی تھی۔ صوبائی حکام  اور مقامی طبی ذرائع نے جمعے کی شام تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کم از کم بھی 56 اور زخمیوں کی تعداد 194 بتائی۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان عاصم خان کے مطابق کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی زخمیوں کی جانیں بچانے کے لیے ان کے جسمانی اعضاء کاٹنا پڑے گئے۔ زیادہ تر زخمی وہ ہیں، جو بم دھماکے کے دوران اس بم کے اڑتے ہوئے حصے لگنے سے یا گرتے ہوئے ملبے کی زد میں آ کر زخمی ہوئے۔ 

آخری اطلاعات ملنے تک اس بم دھماکے کی ذمے داری کسی بھی گروپ نے قبول نہیں کی تھی۔ ماضی میں لیکن ایسے کئی خونریز حملے ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور دہشت گرد تنظیم داعش کی طرف سے کیے جاتے رہے ہیں، جن کی ان شدت پسند گروپوں نے باقاعدہ ذمے داری بھی قبول کر لی تھی۔

Pakistan | Bombenanschlag auf eine Moschee in Peshawar
تصویر: Faridullah Khan/DW

ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں کی طرف سے حملے کی مذمت

پشاور میں آج کے اس خونریز بم حملے کی ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں نے بھرپور مذمت کی ہے۔ اس بم دھماکے کے بارے میں تجزیہ نگار اور ماضی میں سابقہ قبائلی علاقوں کے سیکرٹری کے فرائض انجام دینے والے بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''افغانستان میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں، جنہیں بھارت سے مالی وسائل ملتے ہیں۔ انہیں جب بھی ادائیگیاں ہوتی ہیں، وہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھاکہ آج کے بم حملے کے بعد بھی ایسی مزید دہشت گردی کا خدشہ موجود ہے اور ان خطرات کے تدارک کے لیے سکیورٹی انتظامات مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ محمود شاہ کے مطابق، ''افغانستان سے علاج کے لیے آنے والے کسی بھی مریض کے ساتھ دو تین افراد کو بغیر ویزے کے آنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ اس طرح مشکوک افراد بھی پاکستان آ سکتے ہیں۔ آنے والوں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کہاں اور کس کے پاس ٹھہریں گے۔ اسی طرح پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کے ڈیٹا پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر سکیورٹی انتظامات تو بہرحال مزید سخت کیے جانا چاہییں۔‘‘

Pakistan | Bombenanschlag in einer Moschee in Peshawar
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

صوبائی کابینہ کا ہنگامی اجلاس

آج کے خود کش بم حملے کے بعد صوبائی وزیر اعلیٰ محمود خان نے خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی ‌صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اپنی کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ انہوں نے کابینہ کے وزراء کو فوری طور پر ہسپتال جانے اور زخمیوں کی عیادت کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچنے والے ان کے خصوصی معاون برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ زخمیوں کا علاج جاری ہے اور انہیں جملہ سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔ کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ بڑے عوامی اجتماعات کو زیادہ مؤثر سکیورٹی فراہم کرے گی۔‘‘

پشاور میں حکومتی ارکان کے علاوہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمان، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان محمد عاصم خان، مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان، ایمل ولی خان اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی نے بھی اس خود کش بم دھماکے کی پرزور مذمت کی ہے اور ہلاک شدگان اور زخمیوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

صوبائی پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ پشاور میں کوچہ رسالدار نامی علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی مسجد پر کیے گئے بم حملے کے بعد وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر پولیس نے اپنے مجموعی سکیورٹی انتظامات مزید سخت کر دیے ہیں۔