1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی کم کیوں؟

18 جنوری 2022

جسٹس عائشہ ملک کی پاکستانی سپریم کورٹ میں نامزدگی نے ایک طرف تو ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے، مگر ساتھ ہی پاکستانی نظامِ عدل میں خواتین کے اب تک کم کردار کے حوالے سے توجہ بھی مبذول کروائی ہے۔

https://p.dw.com/p/45hS5
Pakistan Gericht | Supreme Court
تصویر: Waseem Khan/AP Photo//picture alliance

سپریم جوڈیشل کمیشن نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں پہلی بار ایک خاتون جج کی نامزدگی کی توثیق کی ہے، یوں جسٹس عائشہ ملک کی اس اعلیٰ ترین عدالت میں بہ طور جج تعیناتی کی راہ ہم وار ہو گئی ہے۔ اس اقدام کو حکومت، وکلاء، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت سماج کے تمام ہی شعبوں کی جانب سے سراہتے ہوئے ایک تاریخی موقع قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد بھی ملک کی نامزدگی کے حامی ہیں۔

پاکستانی سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی کی راہ ہموار

عائشہ ملک کی عدم تقرری: خواتین کی نمائندگی میں اضافے کا مطالبہ

اس تعیناتی کے لیے اگلی مرحلے میں ایک پارلیمانی پینل عائشہ ملک کو اگلے دس برس کے لیے سپریم کورٹ کے جج کے بہ طور نامزدگی کی توثیق کرے گا۔ مبصرین کے مطابق اس پارلیمانی پینل میں حکمران تحریک انصاف کے ممبران کی کافی تعداد موجود ہے، جو اس تعیناتی کی منظورے دے سکتے ہیں۔

حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی قانون ساز اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''یہ نہایت اہم پیش رفت ہے۔ عائشہ ملک ایک باصلاحیت جج ہیں اور قانون اور عدلیہ کے شعبے میں دیگر خواتین کے لیے ایک مثالیہ بھی۔‘‘

Screenshot Deutsches Generalkonsulat in Karatschi | Ayesha Malik Richterin Oberster Gerichtshof in Pakistan
تصویر: twitter.com/GermanyinKHI

شروعات تو ہوئی

پاکستان میں انسانی حقوق کی آزاد تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس تعیناتی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''اعلیٰ ترین عدالت میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی، عدلیہ کے شعبے میں جنسی تنوع کی صورت حال بہتر بنانے کی راہ میں ایک اہم قدم ہے، جہاں خواتین ججوں کی تعداد صرف سترہ فیصد جب کہ ہائی کورٹس میں یہ تعداد چار اعشایہ چار فیصد ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے کارکنان اور مبصرین کے مطابق اس تعیناتی کے وجہ سے جمود ٹوٹ گیا ہے اور یوں اب ایک طرف خواتین کے لیے قانون کے شعبے میں امکانات پیدا ہوں گے جب کہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی خواتین کے لیے مواقع نکلیں گے۔

پاکستان خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم

معروف قانون دان برائے ڈیجیٹل حقوق نگہت داد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''اس نے یقیناﹰ جمود توڑ دیا ہے۔ اس کا اب نہ صرف صنف سے تعلق رکھنے والے کیسز پر فرق پڑے گا بلکہ خاتون جج کی موجود ہیں خواتین کا نظام انصاف پر اعتبار بھی  بڑے گا کہ وہ عدالتوں کی جانب جا سکتی ہیں۔‘‘

ہارون ججوعہ (ع ت، ع ا)