1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سیاست میں اب تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟

17 مئی 2023

کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شدید مشکلات کی شکار تحریک انصاف کو غیر سیاسی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر عمران خان نے اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو ان کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4RVd2
Pakistan Lahore Imran Khan Anhänger
تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے متعدد تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں مستقبل قریب میں بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں لیکن کچھ وقت گزر جانے کے بعد دونوں طرف حالات بدل سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر عمران خان کو نا اہل کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور کسی ایسے ممکنہ فیصلے کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کا امکانات بہت کم ہیں۔

انٹرسٹی ٹرین مزدوروں کے گروپ پر چڑھ گئی، کم از کم دو ہلاکتیں

 

پاکستان تحریک انصاف نو مئی کو سرکاری اور ملٹری املاک پر ہونے والے حملوں کے بعد زیر عتاب ہے، اس کی اسی فی صد مرکزی قیادت زیر حراست ہے اورکئی پارٹی رہنما پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ صرف پنجاب میں پی ٹی آئی کے ورکروں پر اڑھائی سو سے زائد مقدمات قائم ہو چکے ہیں اور ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقامی انتظامیہ عمران خان کی رہائش گاہ پر مبینہ طور پر چھپے ہوئے کارکنوں کی بازیابی کے لیے زمان پارک پر آپریشن کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پارٹی کارکنوں کو درپیش ہے۔

پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہے؟

ممتاز تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا مستقبل خود عمران خانکے ہاتھوں میں ہے اگر انہوں نے اپنی حکمت عملی درست کرلی تو پھر یہ پارٹی پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کر سکے گی وگرنہ ان کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ سکتی ہیں۔

معروف تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اسے روایتی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسے آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملے یا نہ ملے لیکن اگلی پارلیمنٹ میں اس کا کردار ہوگا۔ ان کے خیال میں نو مئی کے واقعات کو اگر ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو پھر بھی یہ لگتا ہے کہ اسے سیاسی انتقام کا سامنا ہے۔ '' میرے خیال میں اگر پی ٹی آئی کی مرکزی لیڈرشپ کی نو مئی کے واقعات میں شمولیت ثابت ہو گئی تو پھر پارٹی کو سنگین صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘

سینئیر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پی ٹی آئی ایک مشکل دور سے تو گزر رہی ہے لیکن اسے اب بھی عوامی سپورٹ حاصل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بحران سے نکل آئے گی لیکن اگر یہ بحران بڑھتا چلا گیا اور اصلاح احوال کی کوششیں کام نہ کر سکیں تو پھر اس کے نتائج پارٹی کے لیے بہت برے ہو سکتے ہیں۔

کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو سیاسی انجینرئنگ کے ذریعے خوف اور لالچ کی مدد سے اکٹھے کئے گئے لوگوں کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ ایسے لوگوں کو اب اگلی جماعت میں جانے کے لیے صرف ایک اشارے کی ضرورت ہے۔

کیا موجودہ بحران میں پی ٹی آئی کے کارکن اور لیڈر ثابت قدم رہ پائیں گے؟

ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو عدالتی محاذ پر ایک لمبی جنگ لڑنا ہوگی۔ اگر پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات میں بہت تیزی آ گئی تو پھر پاکستان میں سیاست محفوظ نہیں رہے گی اور پھر اس کے اثرات پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں پر بھی ہوں گے۔ مجیب الرحمن شامی کے بقول اگر مقدمے اور گرفتاریاں قانون کے دائرے میں ہوں تو عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے۔ لیکن نو مئی جیسے واقعات نے صورتحال کو بہت سنگین بنا دیا ہے اور اسے سنبھالنا آسان نہیں ہے اسی لیے کئی اہم لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر بھی جا رہے ہیں۔''اگر پی ٹی آئی کو پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اسے نو مئی جیسے واقعات سے دور رہنا ہوگا۔‘‘

 مظہر عباس کے مطابق ایک بات تو ثابت ہے کہ پی ٹی آئی کی مشکلات کے پورے ایک سال میں اس کے بیشتر رہنما اور کارکن ثابت قدم رہے ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے ریلیف ملنا جہاں مقدمات کی ساکھ پر سوال اٹھا رہا ہے وہاں اس میں پی ٹی آئی کا کرکنوں اور لیڈروں کے لئے بھی امید کی کرن ہے۔ ''ایسی صورتحال میں سیاسی جماعتیں کمزور نہیں مضبوط ہی ہوتی ہیں۔ ‘‘

کیا پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت جانچنے کا ایک اچھا پیمانہ تو الیکشنز ہی ہیں اور اگر پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں اب بھی الیکشن کرانے پر تیار نہیں ہیں تو پھر اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے۔ مجیب شامی کہتے ہیں کہ مقبولیت کوئی جامد شے نہیں یہ واقعات کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی مقبولیت کو آزمائش میں ڈالنے کی بجائے اپنی توانائیاں بہتر جمہوری اقدار میں صرف کرنی چاہئیں اور نو مئی جیسے واقعات سے دور رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس وقت مقبولیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، میڈیا صرف ایک طرف کی بات کر رہا ہے، دوسرا موقف پوری طرح سامنے نہیں آ رہا۔ ان کے خیال میں گراونڈ پر پی ٹی آئی کی مقبولیت میں واضح کمی کے شواہد دیکھنے میں نہیں آ رہے۔

کیا پی ٹی آئی الیکشن کا اپنا مطالبہ منوا سکے گی؟

مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ الیکشن تو ملک میں بہرحال ہونے ہی ہیں ۔ انہیں زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں اس کے بعد الیکشن کروانا ہی پڑیں گے۔ ان کے خیال میں اگر عمران خان اسمبلیوں سے نکلنے کی بجائے جمہوری عمل کا حصہ رہتے ہوئے کوشش کرتے تو الیکشن کے معاملے پر بھی اچھی پیش رفت ممکن تھی۔ ڈاکٹر عسکری کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت الیکشن کروانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہی۔ ہو سکتا ہے کہ انتخابات فوری طور پر نہ ہوں لیکن زیادہ دیر تک الیکشن کا التوا ملک کے مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا۔ مظہر عباس کے بقول اکتوبر میں الیکشن نہ ہونے کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ حکومتی پارٹیاں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے سے خائف ہیں۔

کیا عمران خان نا اہل ہو سکتے ہیں؟

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو نا اہل کرنا مشکل ہو گا ایک تو ان کے پاس اپیل کا حق ہوگا دوسرے عدالتیں بھی ان کو ریلیف دے رہی ہیں۔ اگر کسی غیر قانونی طریقے سے عمران خان کو نا اہل کر بھی دیا گیا تو لوگ اس نا اہلی کو نہیں مانیں گے۔ ڈاکٹر عسکری کے مطابق، ''حکومت کی خواہش تو ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا جائے لیکن پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عوامی مقبولیت رکھنے والی سیاسی قوتوں کا غیر سیاسی انداز میں راستہ روکنے کی کوششیں عموماﹰ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی ہیں۔‘‘

 مجیب شامی کہتے ہیں کہ عمران کی نا اہلی کا فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے، ''ان کے خلاف ریفرنسز بھی موجود ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے کتنا لڑ سکتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا انحصار ان کی درست حکمت عملی پر ہوگا وگرنہ ان کے لئے بہت مشکلات ہوں گی۔‘‘

سوچا نہیں تھا حکام ’ریڈ لائن‘ پار کر لیں گے، پی ٹی آئی ورکرز

کیا پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں؟

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سیاست میں عام طور پر دروازے بند نہیں کیے جاتے، حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل بھی کی جا سکتی ہے ۔ ''جو حالات آج ہیں ضروری نہیں کہ کل بھی ایسے ہی ہوں۔ ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ ملک میں سکون ہوگا وگرنہ اگر لڑائی اسی طرح بڑھتی رہی تو پھر ہمیں یہ نہیں سوچنا ہو گا کہ کیا پی ٹی آئی بچے گی کہ نہیں بلکہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ملک میں سیاست بچے گی کہ نہیں۔‘‘

 مجیب الرحمن شامی کے خیال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کے غیر سیاسی رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ ماضی کے حالات دوہرانے کو تیار نہیں اس لیے سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کو فریق بنانے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ابھی فوری طور پر تو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات میں کسی قسم کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر پی ٹی آئی لیڈرشپ نو مئی کے واقعات میں ملوث نہ نکلی تو ہو سکتا ہے کہ آگے جا کر کوئی امکان پیدا ہو جائے۔