1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی آم اب بھارتی درختوں پر اگیں گے

22 مارچ 2024

بھارت اور پاکستان میں بسے منقسم خاندانوں کے درمیان ازدواجی رشتے ہونا تو عام بات ہے۔ مگر کیا دونوں ممالک کے پیڑوں کے درمیان بھی اس طرح کے رشتہ قائم کیے جاسکتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/4e17R
Videostill | Pakistan mango woes attributed to climate change
تصویر: AFP

بھارت کے مغربی صوبہ مہاراشٹر کے خوبصورت شہر پونے کے مضافات میں پاکستان کے چونسہ آم کی کامیاب پیوند کاری بھارت کے کیسری آم کے پیڑ کے ساتھ کی گئی ہے۔ اب اس میں بس پھل اگنے کا انتظار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مساعی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ آم کی اس قسم کا نام وہ دوستي رکھنا چاہیں گے اور یہ پھل دونوں ممالک کے تلخ تعلقات کو مٹھاس میں تبدیل کردے گا اور دنیا بھر میں مشترکہ پھل کے روپ میں اس کی مارکیٹنگ کی جائے گی۔ اس کی افتتاحی فصل بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو بطور تحفہ پیش کی جائے گی۔

امن کے حامی چند کارکنوں نے وہ کام کر دیا، جو برسوں کی سفارتی کاری اور سیاسی تک و دو نہیں کرپائی۔

یہ کہانی چند برس قبل شروع ہوتی ہے، جب امن عالم کے لیے کام کرنے والے چند کارکنان نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی تبلیغ کے لیے سائیکل پر دنیا کے سفر کا ارادہ کیا۔ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے اور کئی ممالک سے گزارنے کے بعد وہ جولائی 2022 میں پاکستان پہنچے۔ جہاں انہوں نے 24 روز گزارے۔ کراچی، شکارپور، ملتان ہوتے ہوئے وہ لاہور پہنچے۔ مقامی افراد نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی خوب خاطر مدارت کی۔

یوگیش وشوا مترا، جنہوں نے  اس وفد کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کو خاصی پذیرائی ملی۔ ان کے ایک ساتھی واکر نتن کہتے کہ جب وہ لاہور سے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان سے بھارت کچھ ایسی چیز لے جانا چاہتے ہیں جو ابدی ہو۔ ابھی وہ اس پر غور و فکر ہی کر رہے تھےکہ ایک کسان ارشاد احمد نے ان کو ایک گملہ تھما دیا، جس میںآم کی ایک قلم بوئی گئی تھی۔ یہ پاکستان کے یوم آزادی یعنی چودہ اگست کا دن تھا۔

Indien Friedensaktivisten Indian Peace Walkers
بھارتی اور پاکستانی امن کے سفیر اور آم کا پوداتصویر: Indian Peace Walkers

اب اس کو سرحدی محافظوں کی نظر بچاکر یا ان کی اجازت کے ساتھ سرحد پار کروانے کا مسئلہ درپیش آیا۔

نتن کہتے ہیں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سب آسان نہیں ہونے والا تھا۔ پاکستانی امیگریشن حکام ان کو بار بار تاکید کر رہے تھے کہ یہ گملہ سرحد پار نہیں کرسکتا ہے۔ افسران نے گملے کی مٹی ہٹا کر تسلی کی کہ اس کے اندر کوئی چیز اسمگل تو نہیں ہو رہی ہے۔

 

 کئی گھنٹوں کی مغز ماری کے بعد اسی افسر کی نظر اس وفد کے ایک رکن جالندھر ناتھ چنولے کے سامان میں موجود بانسری پر پڑی۔ اور اس نے اس کو بجانے کا حکم دیا۔ ہمارے وفد کے ممبر نے ایسی بانسری بجائی کہ امیگریشن کا پورا دفتر ہی وجد میں آگیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ افسر خود بھی بانسری بجانے کے استادوں میں تھے۔ بانسری کے دھن نے کشیدگی کو شگفتگی میں بدل دیا۔ پورے عملہ کا رویہ ہی تبدیل ہوگیا۔

بس اس بانسری کے بدولت انہوں نے پودا لیجانے کی اجازت دی مگر خبردار کیا کہ ہم نے تو جانے دیا مگر بھارتی امیگریشن اس کو آگے نہیں جانے دے گا۔

 

مگر اس وفد کو بانسری اور میوزک کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ بھارتی امیگریشن پر انہوں نے مہاتما گاندھی کے مشہور بھجن کی دھن گائی۔

اگست کی شدید گرمی میں پودےکے مرجھانے کا خطرہ تھا، اس لیے افسران نے ان کو پانی کی ایک بوتل عطیہ میں دی تاکہ پودا پونا پہنچنے تک صحیح و سلامت رہے۔

Indien Friedensaktivisten Indian Peace Walkers
دائیں سے بائیں، نتن ایس، جالندھرناتھ چنولے اور یوگیش وشوا متراتصویر: Indian Peace Walkers

نیتن کے مطابق اس پودے نے امرتسر سے دہلی کا سفر بس میں اور پھر دہلی سے پونے تک کا سفر ٹرین میں طَے کیا۔ اور 22 اگست کو پیس ہل گارڈن میں اس کو لگایا گیا۔

30 جنوری کومہاتما گاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر پاکستان سے آئے مہمان چونسہ کے پودے کی پیوند کاری مہاراشٹر کے مشہور آم کیسری کے ساتھ کی۔

یہ نیا درخت اب تین سال کا ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔

 ادھر لاہور میں بیٹھے ارشاد احمد درخت کی تصویر کو دیکھ کر خوش اور پُر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں، "یہ پودا نہ صرف امن بلکہ امید کی علامت ہے۔ پیس واکرز نے امید کا ایک ایسا بوٹا بویا ہے جو ایک دن جنوبی ایشیائی کےخطے میں نفرت اور کشیدگی کو محبت اور شگفتگی میں بدل دے گا۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک کا قومی پھل آم ہے۔ اس پھل کی مشترکہ ورائیٹی، ایک مشترکہ وراثت کی بھی یاد دہائی کرائی گی۔

انتظار ہے کہ کب آم کی اس مشترکہ ورائیٹی کا پھل تیار ہو کر آجائے اور ہم یوگیش اور نیتن کو اکبر الا آبادی کا یہ شعر یاد دلادیں۔

نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے

اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے

 

سرحد پار سے آیا آم کا درخت جو بھارت پاکستان کے تعلقات میں مٹھاس بحال کرنے کی کوشش کی ایک سِیڑھی ہے۔

 

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔