1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیلے کے چھلکوں سے سینٹری پیڈز بنانے والی پاکستانی کمپنی

1 اپریل 2024

شی گارڈ کی سربراہ کے مطابق پاکستان میں ہر ماہ 67 لاکھ خواتین کو ماہواری کے دوران سینٹری پیڈز کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں سے تقریباﹰ نصف تعداد مختلف مقامی اور غیرملکی برانڈز کے پلاسٹک سے بنے پیڈز استعمال کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4eEC8
Pakistan SheGuard Eco friendly female hygiene productsشی گارڈ 2022 ء میں قائم کی گئی  ایک نئی اسٹارٹ اپ کمپنی ہے
شی گارڈ 2022 ء میں قائم کی گئی ایک نئی اسٹارٹ اپ کمپنی ہےتصویر: SheGuard

پاکستان میں خواتین کے مخصوص ماہانہ ایام اور ان سے متعلق مسائل پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ یہاں دیہی علاقوں میں ہر تین میں سے ایک  عورت ماہواری کے دوران غیر صحت مندانہ طریقوں کے استعمال کی وجہ سےجنسی و دیگر امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں خواتین مخصوص ایام میں پرانے کپڑے یا کھجور کے پتے بھی استعمال کرتی ہیں۔

تاہم اب ایک اسٹارٹ اپ پاکستانی کمپنی شی گارڈ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک قابل بھروسہ اور کم قیمت حل لے کر آئی ہے۔ اس کمپنی نے کیلے کے چھلکوں کے ساتھ سینٹری پیڈز کی تیاری شروع کر رکھی ہے۔

’’شی گارڈ‘‘ کیا ہے؟

شی گارڈ 2022 ء میں قائم کی گئی  ایک نئی اسٹارٹ اپ کمپنی ہے، جو پاکستانی خواتین کے لئے سستے،  محفوظ  اور ماحول دوست سینٹری پیڈز  کی فراہمی کا عزم رکھتی ہے۔  شی گارڈ نے ابتدائی مرحلے میں کیلے کے چھلکوں سے  بنے ماحول دوست پیڈز مارکیٹ میں لانچ کیے ہیں ۔

شی گارڈ کی تیار کردہ پراڈکٹس ماحول دوست بھی ہیں
شی گارڈ کی تیار کردہ پراڈکٹس ماحول دوست بھی ہیںتصویر: SheGuard

صرف دو سال کے عرصے میں اس کمپنی نے انٹر نیشنل فورمز پر اپنے اچھوتے آئیڈیاز سے دھوم مچا دی ہے۔ نومبر 2023ء میں شی گارڈ نے ''کلائی میٹ لانچ پیڈ۔ ایشیاء پیسیفک‘‘فورم پر ایشیاء پیسیفک کے چھ ممالک سے 172 ٹیموں کا مقابلہ کرتے ہوئے کلین ٹیکنالوجی میں اول انعام حاصل کیا۔

ڈی ڈبلیو نے شی گارڈ کی بانی مہرین رضا سے ان کی پراڈکٹس کی افادیت پر خصوصی بات چیت کی ہے۔

کیلے کے چھلکوں سے پیڈز کی تیاری کا خیال کیسے آیا؟

مہرین رضا:  پاکستان میں چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں لاکھوں خواتین کو محفوظ سینٹری پراڈکٹس  دستیاب نہیں ہیں۔     وہ کہتی ہیں کہ ہمارا سماجی نظام ایسا ہے، جہاں  خواتین کو  ماہواری سے متعلق مسائل پر کھل کے بات کرنے کی اجازت ہی  نہیں ہے۔ 

وہ مزید بتاتی ہیں کہ متوسط طبقے کی خواتین کی ایک بڑی تعداد مالی مسائل کی وجہ سے یہ اشیاء خریدنے سے قاصر ہے۔  خواتین عموما گھر کے پرانے کپڑے استعمال کرتی ہیں جو صحت کے مسائل اور جنسی امراض کا سبب بن رہےہیں۔

مہرین کے مطابق اوسط عمر والی ایک  پاکستانی عورت پوری زندگی میں تقریبا 16 ہزار پیڈز استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ہر روز 71 ہزار ٹن سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے جس کا 11 فیصد یہ سینٹری پیڈز ہوتے ہیں۔ یہ  کچرا بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہا ہے۔ 

مہرین بتاتی ہیں کہ ان تمام مسائل کو ایک ساتھ حل کرنے کے لیے انہوں نے 2022 ء میں اپنے سٹارٹ اپ شی گارڈ کا آغاز کیا تھا ۔ابتدائی مرحلے میں ان کی ٹیم کیلے کے چھلکوں سے ماحول دوست سینٹری پیڈز تیار کر رہی ہے۔ 

 ان کے مطابق پاکستان کیلے کی پیداوار میں خود کفیل ہے اور کیلا ہر سیزن میں استعمال کیا جانے والا ایک اہم پھل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں تقریبا 35 ہزار ٹن  کیلے کے چھلکے کچرے میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

 شی گارڈ کو ان کی اختراع پر متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ  بھی مل چکے ہیں
شی گارڈ کو ان کی اختراع پر متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ بھی مل چکے ہیںتصویر: SheGuard

 یوں  انھیں خیال آیا کہ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پیڈز تیار کئے جا سکتے ہیں۔ مہرین مزید بتاتی ہیں کہ کم لاگت کی وجہ سے ان پیڈز کی قیمت بھی کم ہے اور یہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی خواتین کی قوت خرید میں ہیں۔

کیلے کے چھلکے سے بنے سینٹری پیڈز کی افادیت کیا ہے؟

مہرین رضا:  شی گارڈ کےسینٹری پیڈز بایو ڈی گریڈیبل اور ہربل ٹریٹڈ ہیں۔ ان سے نا صرف پلاسٹک کے بڑھتے  کچرے کو لگام ڈالنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ ملک میں خواتین کی سینٹری پراڈکٹس کی بڑھتی مانگ پورا کرنے بھی معاون ثابت ہوں گے۔

مہرین کے مطابق پاکستان میں ہر ماہ 67 لاکھ خواتین کو  ماہواری کے لئے پیڈز کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے 23  لاکھ مختلف انٹر نیشنل پراڈکٹس کے تیار کردہ پلاسٹک کے پیڈز استعمال کرتی ہیں۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ 2019 میں بی بی سی کی جانب سے کیےگئے ایک سروے کے مطابق  پاکستانی خواتین ماہواری سے متعلق اشیاء اور ادویات پر ایشیا کے 18 ممالک میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔

 وہ کہتی ہیں کہ فرض کریں ایک گھر میں چار خواتین یا لڑکیاں ہیں، جن کا ہرماہ پیڈز کا خرچہ ہزاروں میں بنتا ہے، جو متوسط طبقے  کی قوت خرید سے باہر ہے۔ بازار میں دستیاب  کئی پراڈکٹس غیر معیاری ہیں، جن کے متعلق خواتین اور لڑکیوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

مہرین کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کے پیریڈز کے لئے پیڈز کی تیاری   ایک ابھرتا ہوا بزنس ہے، جس کی مارکیٹ ویلیو  47 بلین ڈالرزسے تجاوز کر چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  شی گارڈ کے ماحول دست پیڈز کے وژن اور بزنس ماڈل کو بہت تھوڑے عرصے میں بہت پزیرائی ملی ہے۔    

Menstruation | Stoffbinde
پاکستانی خواتین کی اکثریت کو ماہوری کے دوران صفائی ستھرائی کے لیے قابل بھروسہ اور صحت مند اشیاء تک رسائی حآصل نہیں ہےتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

وہ بتاتی ہیں کہ کلائیمیٹ لانچ پیڈ۔ ایشیاء پیسیفک فورم میں پہلا انعام جیتنا ان کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا اور وہ اس فورم سے اپنے بزنس ماڈل کی تجدید کے لئے بہت کچھ سیکھ کر آئی ہیں۔

مہرین کے مطابق ان کی ٹیم میں حفظان صحت، واٹر سینی ٹیشن، بایو ٹیکنالوجی اور میکینیکل انجینئرنگ سے متعلق ماہرین شامل ہیں، جو بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یعنی  شی گارڈ ماہرین کا ایک مکمل یونٹ ہے، جو خواتین کی صحت، ماحول کی حفاظت اور سماجی بہبود کا عزم لے کر مارکیٹ میں آیا ہے۔

خواتین پیریڈز کے لیے دستیاب پراڈکٹس کا انتخاب کیسے کریں؟

48 سالہ شمائلہ جمیل لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن کی رہائشی اور دو بچیوں کی ماں ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چند سال پہلے تک وہ اندرون  لاہور میں رہتی تھیں، جہاں چھوٹی دکانوں سے بچیوں کے لئے پیڈز خریدنا ایک مسئلہ ہوتا تھا۔

  شمائلہ بتاتی ہیں دکان دار پیڈز لفافے میں چھپا کر اس طرح پکڑاتا تھا جیسے کوئی  ممنوعہ شے یا منشیات خرید رہے ہوں۔ بچیوں کو ان پیڈز سے اکثر خارش اور دیگر مسائل کا سامنا بھی رہتا تھا ۔

ان کے مطابق  نئے علاقے میں سپرسٹوروں سے وہ با آسانی سینٹری اشیاء  خرید لیتی ہیں، جہاں خواتین سیل پرسن انہیں مختلف سینٹری پراڈکٹس کے متعلق مناسب معلومات بھی دیتی ہیں، جن سے پیڈز خریدنے میں آسانی ہوتی ہے۔

اس حوالے سے مہرین رضا  کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی نا صرف ماحول دوست پیڈز  بنا رہی ہے بلکہ ان کی ٹیم خواتین میں سینٹری اشیاء سے متعلق آگاہی و شعور پھیلانے کے لئے بھی سر گرم ہے۔ ان کا ٹارگٹ خا ص طور پر دیہی علاقوں کی خواتین ہیں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ محفوظ اور سستی سینٹری پراڈکٹس ان خواتین کا حق ہیں، جس کی فراہمی کے لئے شی گارڈ مسلسل کوشاں ہے۔

ماحول دوست سینیٹری پیڈز