1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحت

پاکستان کی نئی ویزہ پالیسی: دوست کون، دشمن کون؟

15 مارچ 2019

کسی ملک کی ویزہ پالیسی وہ بنیادی دستاویز ہوتی ہے، جس سے اس ملک کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس نئی پالیسی کے مطابق ماضی کے کئی ناپسندیدہ ممالک پسندیدہ کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3F6rQ
Blogger Azaz Syed
تصویر: Azaz Syed

دنیا بھر کے ممالک اپنے دوست ملکوں کے بارے میں تو ببانگ دہل مثبت بیانات اور سہولیات کا اعلان  کرتے رہتے ہیں مگر سفارتی آداب کے باعث ناپسندیدہ ممالک کے بارے میں عام طور پر کوئی بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کم و بیش انہی سفارتی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نئی ویزہ پالیسی جاری کر دی ہے۔

 نئی ویزہ پالیسی میں آن لائن ویزہ درخواست اور ویزہ کے اجرا کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ سہولت برطانیہ، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کو دی گئی ہے بعد میں یہ سہولت 175 دیگر ممالک کو بھی دی جائے گی۔ اس سہولت کے ان پانچ ممالک پر اطلاق سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ان ممالک سے پاکستان کے تعلقات مثالی ہیں۔ اسی لیے سب سے پہلے یہ سہولت ان ممالک کے شہریوں کو دی گئی ہے۔

پاکستان کی ویزہ پالیسی میں نا پسندیدہ ممالک کے لیے ایک خصوصی فہرست جسے ، بی لسٹ کہا جاتا ہے مرتب کی گئی ہے۔ اس لسٹ میں شامل ممالک کے شہریوں کو ویزہ کے اجرا میں مختلف قسم کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سخت قسم کے چیکس مرتب کیے جاتے ہیں۔ اس فہرست کا باقائدہ طور پر اجرا تو نہیں کیا گیا مگر پتہ چلا ہے کہ اس بی لسٹ میں شامل سات ممالک کی تعداد کم کر کے دو ممالک تک محدود کر دی گئی ہے۔ ان دو ممالک میں بھارت اور صومالیہ شامل ہیں۔

بھارت کا نام اس فہرست میں شامل ہونا بڑا فطری سا عمل ہے۔ دونو ں ممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی نشیب و فراز کا شکار رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی چھوٹی بڑی جنگیں بھی  ہو چکی ہیں۔ اس تناظر میں بھارت پاکستان کے ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ بھارت کے بعد دوسرا نا پسندیدہ ملک افریقہ سے تعلق رکھنے والا صومالیہ ہے۔

1960ء میں قائم ہونے والا صومالیہ 1991ء میں اس وقت کی فوجی حکومت کے صدر سیاد بارے کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے خانہ جنگی کا شکار ہے ۔ سال 2012ء میں صومالیہ میں بین الاقوامی برادری کی حمایت یافتہ ایک حکومت قائم کی گئی مگر اسے تاحال القاعدہ سے منسلک الصحاب نامی تنظیم اور دیگر وار لارڈز کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ظاہر ہے اس سارے عمل میں اس ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور اس کے شہری مختلف ممالک میں پناہ کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اتنی اچھی تو نہیں مگر صومالیہ کے شہریوں کے لیے کسی زمانے پاکستان کا ویزہ ملنا آسان تھا لہذا وہ بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کر گئے۔  اسی لیے پاکستان نے اس ملک کو ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ 

اب اہم بات یہ ہے کہ اس فہرست میں سے کس کس کو نکالا  گیا۔ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈائریکٹوریٹ کی اس فہرست میں کسی زمانے میں پڑوسی ملک ایران بھی شامل تھا مگر پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت میں ایران کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا اور ایران سے بہتر تعلقات استوار کیے گئے۔ آخری بار اس فہرست میں مجموعی طور پر سات ممالک شامل تھے۔

ناپسندیدہ ممالک کی سابقہ فہرست میں بھارت اور صومالیہ سمیت اسرائیل، بنگلہ دیش، نائیجیریا، پی ایل او اور شام شامل تھے۔ ان تمام ممالک میں سب سے اہم ملک بنگلہ دیش ہے، جسے اس فہرست سے نکال دیا گیا ہے یعنی ماضی میں بنگلہ دیش ناپسندیدہ ملک تھا اب اس کا درجہ بہتر ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش 1971ء میں قائم ہوا تھا مگر پاکستان نے اسے کم و بیش دو سال بعد سفارتی سطح پر تسلیم کیا تھا تاہم اس کا نام تب سے اب تک ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔

 نائجیریا کا نام بھی مخدوش معاشی صورتحال کی وجہ سے اس فہرست میں شامل تھا۔ اسرائیل کو ہم نے قبول نہیں کیا تھا جبکہ پی ایل او یعنی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ارکان کو ماضی میں پاکستان میں مختلف قسم کی غیر سفارتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔  شام کا نام اس فہرست میں چند سال قبل اس ملک میں خانہ جنگی کے باعث شامل کیا گیا تھا۔ پاکستان کو شک رہا تھا کہ شام سے مختلف انتہاپسند عناصر پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں جبکہ کچھ پاکستانیوں کے براہ راست یا بذریعہ ایران شام جا کر متحارب انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی اطلاعات بھی منظر عام پر آئیں تھیں۔

اب کچھ ایسے ممالک بھی ہیں، جنہیں پاکستان نے تسلیم نہیں کر رکھا۔ عام تاثر تو یہی ہے کہ ان ممالک میں صرف اسرائیل شامل ہے مگر آرمینیا اور تائیوان بھی دو ایسے ممالک ہیں، جنہیں پاکستان نے باضابطہ طور تسلیم ہی نہیں کیا اور ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ 

اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ پاکستان کی فلسطینیوں سے محبت اور ان کے موقف کی حمایت ہے۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں اس پالیسی پر عمل پیرا رہیں۔ آرمینیا کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ دوست ملک آذربائیجان ہے، جس کے ساتھ آرمینیا کا تنازعہ ہے۔ آرمینیا آذر بائیجان سے الگ ہو کر اپنے قیام کا اعلان کر رہا ہے، جسے پاکستان نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ تائیوان کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ پاکستان کی چین سے دوستی ہے۔

چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور تائیوان خود کو ایک الگ ملک قرار دیتا ہے لہذا پاکستان دوست ملک چین کی وجہ سے تائیوان کے ساتھ کھڑا ہے ۔

پاکستان کی نئی ویزہ پالیسی میں بزنس کے فروغ کے لیے پہلے سے موجود اڑتالیس ممالک کی فہرست کو بڑھا کر 96 کر دیا گیا ہے تاکہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ لوگ سرمایہ کاری کر سکیں۔ پاکستان کی نئی ویزہ پالیسی میں کافی بہتری لائی گئی ہے۔ ظاہر ہے اس میں وزارت داخلہ، پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈائریکٹوریٹ اور وزارت خارجہ نے بڑا کردار ادا کیا ہے مگر اس ویزہ پالیسی میں امیگریشن کے قوانین کو تاحال نرم نہیں کیا گیا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔