1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاکستان کا افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کا الزام

13 نومبر 2023

افغانستان کے لیے پاکستان کے اہم سفارتی نمائندے کا الزام ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی رشتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4YjUF
Pakistan Bannu | Militär beendet Geiselnahme in Gefängnis
تصویر: Muhammad Hasib/AP Photo/picture alliance

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی سفارتی نمائندے آصف درانی کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) در اصل کابل کے طالبان حکمرانوں کے زیر اثر ہے اور اسلام آباد کے لیے یہ بات ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ ہی کافی پریشان کن بھی ہے۔

بلوچستان: عید میلاد النبی کے جلوس پر خود کش حملہ، کم ازکم 52 افراد ہلاک

ان کا کہنا تھا، ''ہمارے لیے اس حقیقت کا ادراک ناقابل فہم ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ، جو افغانستان میں رہتے ہیں، ان کے (افغان طالبان) کے کنٹرول میں ہیں۔ انہیں پاکستان کی سرحد عبور کرنے، تخریب کاری کی سرگرمیاں کرنے، قتل عام کرنے اور پھر واپس جانے کی بھی اجازت ہے۔''

ایک آپریشن میں آٹھ عسکریت پسند ہلاک، پاکستانی فوج کا دعویٰ

پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے پاکستان کے ایک میڈیا ادارے 'ایمبیسیڈرز لاؤنج' کے ساتھ اس بارے میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کہا کہ ''یہ وہ چیز ہے جو ہمارے لیے پریشان کن ہے۔''

تنازعہ طالبان کے ساتھ لیکن کریک ڈاؤن افغان مہاجرین پر

پاکستانی حکام کئی بار اشارتاً یا پھر نجی گفتگو کے دوران افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے گٹھ جوڑ کے بارے میں باتیں کرتے رہے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کسی سینیئر اہلکار نے کھل کر اس بارے میں اس طرح کی بات کی ہو۔

پاکستانی سرحد پر شدت پسندوں کا حملہ، چار سکیورٹی اہلکار ہلاک

یہ بیان پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال کا بھی عکاس ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ٹی ٹی پی کا مسئلہ ایک بڑی رکاوٹ بن کر ابھرا ہے، کیونکہ پاکستان اس دہشت گرد تنظیم کے لیے کابل کی حمایت سے کافی پریشان ہے۔

پاکستانی سفارت کار نے مزید کیا کہا؟ 

آصف درانی نے بات چیت کے دوران کہا، ''ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے۔''  ان کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرے اور انہیں غیر مسلح کرے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''افغان طالبان اس ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے''، کیونکہ یہ دو طرفہ تعلقات کے لیے اچھا نہیں ہے۔

سکیورٹی میں کوتاہی کے بغیر ایسا حملہ نہیں ہو سکتا، اعلیٰ پولیس اہلکار

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ کہا جاتا ہے کہ وہ (افغان طالبان اور ٹی ٹی پی) ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔'' انہوں نے واضح طور اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ پاکستان کو پہلے ان دونوں کے تعلقات کے بارے میں غلط فہمی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عروج اور افغانستان میں امریکی فوجی مہم کے دوران اکثر افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان فرق کو واضح کرتے رہے تھے۔ اسلام آباد نے افغان طالبان کو غیر ملکی قبضے کے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک قومی تحریک کے طور پر دیکھا، جبکہ ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔

لیکن دو برس قبل افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کی اس سوچ اور بیانیے میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے۔ البتہ بعض حلقوں کو اس بات کا بھی شک ہے کہ شاید افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

افغانستان کا امن پاکستان کے لیے 'ڈراؤنا خواب'

درانی کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6000 کے قریب دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے کام کر رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کے خاندانوں کو بھی شمار کیا جائے تو ان کی تعداد ساٹھ سے پینسٹھ ہزار تک پہنچتی ہے۔

درانی نے کہا، ''افغانستان میں عبوری حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کے اندر امن قائم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں جرائم کم سے کم ہوگئے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں کوئی بدعنوانی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معیشت کو بہتر کیا ہے۔ عالمی سطح پر اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے، خاص طور پر افیون کی کاشت 95 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر یہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کا امن حقیقت میں پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے، کیونکہ جو لوگ پناہ گاہیں حاصل کر رہے ہیں وہ افغانستان کے اندر ہیں۔''

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کابل کا دو بار دورہ کیا ہے اور افغان طالبان کہتے رہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ تاہم درانی نے کہا کہ ''مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ عملی اقدام بھی کرتے ہیں۔ اہم یہی ہے۔''

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان طالبان کے امیر نے پاکستان کے خلاف حملوں سے منع کرتے ہوئے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا۔ لیکن اس حکم کے باوجود بھی ٹی ٹی پی کے حملے جاری رہے۔

انہوں نے کہا، ''ان کے (طالبان) وزراء نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے ہیں۔ تو کیا ہم یہ مانیں کہ ٹی ٹی پی ان کے احکامات کی نافرمانی کر رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ بیعت جس کا ٹی ٹی پی نے طالبان کے سربراہ سے اعلان کیا ہے، باطل سمجھی جانی چاہیے۔ اگر یہ بیعت کالعدم قرار سمجھی جائے، تب تو ٹی ٹی پی کو سزا دی جانی چاہیے۔''

درانی نے کہا، ''اگر آپ اسلام یا روایت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، تو دونوں صورتوں میں بھی یہ سزا کا مسئلہ ہے کیونکہ وہ (ٹی ٹی پی) افغانستان کی سرزمین کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہیں۔''

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

ہم ٹی ٹی پی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بلاول بھٹو زرداری