1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں لیشمینیا تیزی سے پھیلتا ہوا

14 مئی 2023

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بہت سے علاقوں میں لیشمینیا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ لیشمینیا کو مقامی زبان میں کال دانہ یا کالا آزر کہا جاتا ہے، جو ایک جلدی مرض ہے۔

https://p.dw.com/p/4RK5O
Leishmaniose
تصویر: CAVALLINI JAMES/BSIP/picture-alliance

اگست 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد صوبہ سندھ اور بلوچستان کے گرم و مرطوب علاقوں میں لیشمینیا کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کے متعدد علاقوں میں اس بیماری کی ایک خاص قسم کو اینڈیمک قرار دیا جا چکا ہے۔ اس جلدی بیماری سے زیادہ تر سات سال سے کم عمر کے بچے اور خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔


لیشمینیا کا مرض کیا ہے؟

 لیشمینیا کو  مقامی زبان میں ''کال دانہ‘‘ یا  ’’کالا آزر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے نے ڈاکٹر ذیشان حیدر سے خصوصی بات چیت کی ہے۔ ڈاکٹر ذیشان حیدر لاہور یونیورسٹی میں شعبہ مائیکرو بائیالوجی اینڈ بائیو میڈیکل سائنسز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ذیشان حیدر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لیشمینیا ایک خاص قسم کی مکھی ''سینڈ فلائی‘‘ کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ یہ مکھی جسم کے کھلے حصوں جیسے چہرہ، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ پر کاٹتی ہے، جس سے دانہ نمودار ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ پھیلتا جاتا ہے۔ اکثر اس جگہ پر بڑے زخم بن جاتے ہیں، جس سے جسم کا متاثرہ حصہ انتہائی بد نما دکھائی دیتا ہے۔  

ڈاکٹر ذیشان کے مطابق اگرچہ لیشمینیا کا مرض جان لیوا نہیں ہے لیکن بروقت اس کا علاج نہ ہونے سے مریض کی زندگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں، ''چہرہ یا متاثرہ حصہ بد نما دکھائی دینے اور منفی سماجی رویوں کے باعث مریض لوگوں سے ملنے میں جھجک محسوس کرتا ہے۔ لیشمینیا خاص طور پر نوجوان لڑکیوں میں نفسیاتی مسائل کا سبب بن رہا ہے۔‘‘ 

لیشمینیا کی کون سے قسم زیادہ مہلک ہے؟

ڈاکٹر ذیشان حیدر نے بتایا کہ لیشمینیا کی تین اقسام ہیں، جن سے سب سے زیادہ مہلک ''وسیرل لیشمینیا‘‘ ہے، ''اس کی دوسری قسم ''کیوٹینس لیشمینیا‘‘ عام پائی جاتی ہے، جو سکن السر کا سبب بنتی ہے، جبکہ تیسری قسم ''میوکیوٹینس‘‘ سے منہ، ناک اور حلق متاثر ہوتے ہیں۔

Sandmücke der Art Phlebotomus papatasi bei der Blutmahlzeit
لیشمینیا ایک خاص قسم کی مکھی ''سینڈ فلائی‘‘ کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔تصویر: Gemeinfrei

وہ مزید بتاتے ہیں کہ لیشمینیا سے نمودار ہونے والا دانہ دو سے آٹھ ماہ میں بھر جاتا ہے لیکن علاج میں تاخیر کی صورت میں اسے بھرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ ان کے بقول اس دوران متاثرہ حصے پر زخم بننے سے سوجن اور درد رہتا ہے جبکہ بعض اوقات اس سے متاثرہ عضو بالکل ناکارہ بھی ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں لیشمینیا کیوں تیزی سے پھیل رہا ہے؟

عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2014ء سے 2018ء کے دوران لیشمینیا کے 1 لاکھ 87 ہزار کیسز نوٹ کیے گئے تھے۔ اگلے برسوں میں ان کیسز میں بتدریج اضافہ ہوا مگر 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں لیشمینیا بہت تیزی سے پھیلا ہے۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں گلگت، پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں ویسیرل لیشمینیا کو اینڈیمک قرار دیا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر ذیشان حیدر کے مطابق اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں، صفائی کا ناقص نظام اور دیہی علاقوں میں حفظان ِ صحت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ لیشمینیا کا سبب بننے والی مکھی کچی مٹی یا غیر پلاستر شدہ گھروں میں اپنا مسکن بناتی ہے۔ وہ علاقےجہاں لائیو سٹاک کو گھر وں میں رکھا جاتا ہے یا جن  گجان آباد علاقوں میں گائے، بھینسوں کے باڑے ہیں، وہاں لیشمینیا کے کیسز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

سیلاب متاثرین اپنی زندگیوں کی بحالی کے لیے کوشاں

ڈاکٹر ذیشان مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس بیماری کے پھیلنے کی ایک اور بڑی وجہ ادویات کی قلت بھی ہے، ''اس مرض کے علاج کے لیے ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں ''گلوکین ٹائم‘‘ نامی انجیکشن کا کورس تجویز کیا جاتا ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈراپ) نے ابھی تک پاکستان میں گلوکین ٹائم کی فروخت کی اجازت نہیں دی۔ یہ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں بلا اجازت بلیک میں فروخت کیا جارہا ہے۔‘‘

اس پیچیدہ صورتحال کی وجہ سے کوئٹہ، کچلاک اور پشاور میں ایم ایس ایف لیشمینیا ٹریٹمنٹ سینٹرز پر والدین کو اپنے بچوں کے علاج کے لیے کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔

لیشمینیا کی روک تھام کے لیے ایم ایس ایف پاکستان کی خدمات

ایم ایس ایف ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جو 2008ء سے پاکستان میں لیشمینیا کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے۔ ایم ایس ایف کے فیلڈ کمیونیکیشن آفیسر شہزاد بدر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تنظیم نے اپنی سرگرمیاں بلوچستان میں کچلاک سے شروع کی تھیں۔ اس کے بعد بتدریج اپنے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں کرم ایجنسی اور باجوڑ میں سرگرمیاں شروع کیں، جہاں وسیرل لیشمینیا کو اینڈیمک قرار دیا جا چکا ہے۔

Erreger der Leishmaniose
عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2014ء سے 2018ء کے دوران لیشمینیا کے 1 لاکھ 87 ہزار کیسز نوٹ کیے گئے تھے۔ تصویر: Science Photo Library/imago images

وہ مزید بتاتے ہیں کہ کوئٹہ اور کچلاک میں لیشمینیا ٹریٹمنٹ سینٹرز میں مفت علاج کیا جاتا ہے اور 2022ء تک یہاں تقریبا چھ ہزار افراد کا علاج کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگلے چند ماہ میں بنوں اور ملحقہ علاقوں میں بھی ایسے سینٹرزکھولنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

شہزاد بدر کا کہنا ہے کہ علاج سے زیادہ مقامی افراد کو مرض کے پھیلنے کی وجوہات اور روک تھام سے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے، ''سینڈ فلائی اب تیزی سے گنجان آباد علاقوں میں پھیل رہی ہیں کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ان کے قدرتی مسکن تباہ ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے پھیلاؤ کو روکنےکے لیے گھروں کی روزانہ صفائی، سپرے اورحفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘  

شہزاد بدر مزید بتاتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ایم ایس ایف لیڈی اور کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی ٹریننگ کے لیے پروگرام منعقد کر رہی ہے۔ یہ ہیلتھ ورکرز دیہی علاقوں میں گھر گھر جا کر خواتین کو لیشمینیا سے بچاؤ سے متعلق تعلیم دے رہی ہیں کیونکہ اس سے سب سے زیادہ سات سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہو رہے ہیں۔