1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں شہریوں کی جبری گمشدگیاں ایک بڑا مسئلہ کیوں ہیں؟

4 ستمبر 2022

عام شہریوں کا زبردستی لاپتہ کر دیا جانا پاکستان میں ایک سنگین اور دیرینہ مسئلہ ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک سابق چیئر پرسن کا کہنا ہے کہ ملکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4GMlS
Pakistan Islamabad Proteste Baloch Studenten
تصویر: privat

عام شہریوں کا زبردستی لاپتہ کر دیا جانا پاکستان میں ایک سنگین اور دیرینہ مسئلہ ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک سابق چیئر پرسن کا کہنا ہے کہ ملکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جانا چاہیے۔

11 مئی 2022ء کی دوپہر تھی جب پاکستان میں زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے طالب علم فیروز بلوچ اپنی کتابیں لے کر یونیورسٹی لائبریری کی طرف روانہ تو ہوئے لیکن وہ وہاں کبھی نہ پہنچے اور لاپتہ ہو گئے۔ وہ کہاں ہیں، یہ بات آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔

فیروز بلوچ کے کزن اور اسی یونیورسٹی کمپلیکس کے ایک ہوسٹل میں اس کے روم میٹ رحیم بلوچ نے جب دیکھا کہ فیروز کافی دیر سے لاپتہ ہیں اور واپس کیمپس نہیں آئے، تو جیسا کہ وہ عام طور پر کیا کرتے تھے، انہوں نے پہلے انہیں ایک واٹس ایپ میسج بھیجا۔ اس بارے میں رحیم بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''پہلے میں نے اسے واٹس ایپ پیغام بھیجا، لیکن وہ ڈلیور ہی نہ ہوا۔ یعنی اس تک نہیں پہنچا۔ میں نے اسے کال کرنے کی کوشش کی تو اس کا نمبر بند تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید اس کے موبائل فون کی بیٹری ختم ہو گئی ہوگی اور وہ جلد لوٹ آئے گا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میری پریشانی بڑھتی گئی۔ میں نے اسے تربت بلوچستان میں اس کے گھر فون کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کے والدین سے پوچھوں کہ آیا ان کا حال ہی میں اپنے بیٹے سے کوئی رابطہ ہوا ہے، لیکن رات بہت ہو چکی تھی اور اس کے والدین سو چکے تھے۔‘‘

جبری گمشدگیوں پر بل مسترد، کئی حلقوں کا افسوس

Pakistan Islamabad Proteste Baloch Studenten
اسلام آباد میں بلوچ طلبا کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجتصویر: privat

رحیم بلوچ نے بتایا کہ فیروز کے والد نور بخش بلوچستان کے محکمہ پولیس میں ملازم ہیں۔ رحیم بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ''فیروز کے واپس آنے کے انتظار میں ہم پوری رات جاگتے رہے۔ اگلے دن تک ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ کو فیروز کے لاپتہ ہونے کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ ہم قریبی تھانے میں رپورٹ درج کرانے گئے تو پولیس نے شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا اور ہمیں بتایا کہ ایسا صرف قریبی یا خون کے رشتہ دار ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ رحیم بلوچ نے مزید کہا کہ فیروز کے والد نور بخش نے جو بلوچستان میں پولیس کے محکمے کے سرکاری ملازم ہیں اپنے لاپتہ بیٹے کی گم شدگی کی ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔ فیروز بلوچ کے والد نے ڈی ٰڈبلیو کو بتایا، ''یہ 12 مئی کا دن تھا، جب رحیم نے ہمیں فیروز کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی۔ یہ خبر میرے دل پر تیر کی طرح لگی۔ مجھے اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کو اس واقعے کے بارے میں بتانے کے لیے بڑی ہمت کرنا پڑی۔ اس دن کے بعد سے ہم ایک رات بھی سکون کی نیند نہیں سوئے۔ میں اور میرا سارا خاندان ساری رات جاگتے رہتے ہیں۔ لاپتہ فیروز کی بحفاظت واپسی کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ ہمارے خاندان کا سکون اور خوشی تباہ ہو گئے۔ ہمیں مسلسل صدمے کا سامنا ہے اور  ہم مسکرانا تک بھول چکے ہیں۔ میری بیوی اسی وقت سے بیمار پڑی ہے، جب سے اسے معلوم ہوا ہے کہ ہمارا بیٹا لاپتہ ہو چکا ہے۔‘‘

فیروز بلوچ کی گمشدگی سے عام لوگوں میں پاکستانی شہریوں کے اچانک لاپتہ ہو جانے کے بارے میں شعور بھی بیدار  ہوا ہے۔ 2000ء کے بعد سے، جب اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی آمرانہ حکومت قائم کی تھی، تب سے ہی ملک میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ عروج پر ہے۔

ایک ماں، جو لاپتہ کشمیریوں کے لیے لڑ رہی ہے

Äthiopien Hawassa | Tourismus geht zurück
بلوچ اور دیگر برادیریوں سے تعلق رکھنے والے افراد گزشتہ حکومت سے بھی سخت احتجاج کر چُکے ہیںتصویر: Amina Janjua

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے یکدم لاپتہ ہو جانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ بلوچ اور پشتون نسل کے شہریوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مارچ 2011 ء میں ایک کمیشن آف انکوائری اون فورسڈ ڈس اپیئرنسز  (COIOED) بھی بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن کے 2022 ء میں جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لاپتہ افراد کی یکدم گم شدگی کے کل آٹھ ہزار چھ سو چھیانوے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے چھ ہزار پانچ سو تیرہ واقعات حل ہو چکے ہیں جبکہ دو ہزار دو سو انیس کیس ابھی بھی التوا میں ہیں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے اسلام آباد میں مقیم صحافی گوہر محسود کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا انکوائری کمیشن کے اعداد و شمار حقیقی تعداد سے کہیں کم ہیں۔ یہ کمیشن 2011 ء میں تشکیل دیا گیا تھا اور سال 2000 میں عام شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مزید برآں بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور سابق فاٹا کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کے لیے اس کمیشن تک رسائی حاصل کرنا اور اپنے لاپتہ عزیزوں کی گمشدگی کی رپورٹیں درج کرانا بھی بہت مشکل ہے۔‘‘

پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے مطابق پانچ ہزار سے زائد پشتون اب بھی لاپتہ ہیں۔ سابق سینیٹر اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئر پرسن افراسیاب خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی سینیٹ میں انہوں نے اپنی رکنیت کے دور میں ایسی جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنوائی تھی۔ اس کمیٹی نے اندازہ لگایا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں ملکی انٹیلیجنس ایجنسیاں اور خاص طور پر انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) ملوث ہیں۔

زہرہ کاظمی (ک م / م م)