1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہارپاکستان

پاکستان میں خود ساختہ راست باز صحافت کی بڑھتی سنسنی خیزی

عصمت جبیں اسلام آباد
30 مارچ 2024

پاکستان میں صرف خود کو ہی حق بجانب اور راست باز سمجھنے والی سنسنی خیز صحافت کا رجحان مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ رجحان ایسی گہری سماجی تشویشن کا باعث بن رہا ہے، جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4e6WE
پاکستان میں ایک سٹال پر بکنے والے اخبارات اور جرائد
پاکستان میں ایک سٹال پر بکنے والے اخبارات اور جرائدتصویر: Muhammad Sajjad/AP/picture alliance

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں گزشتہ کافی عرصے سے الیکڑانک اور ڈیجیٹل میڈیا خبروں تک رسائی کے مؤثر ذرائع بن چکے ہیں۔ اس لیے وہاں نئی طرز کی سنسنی خیز صحافت پر معاشرتی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں موجود عدم مساوات اور شہری حقوق کے عدم تحفظ کی ایک بڑی وجہ حقائق پر مبنی پیشہ وارانہ اور ذمہ دارانہ صحافتی رویوں کی کمی بھی ہے۔

پاکستانی حکام صحافیوں اور میڈیا کے تحفظ کو یقینی بنائیں، سی پی جے

مرکزی دھارے کے ملکی ذرائع ابلاغ کی اولین ترجیح اپنا منافع بڑھانا ہے، نہ کہ شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ۔ اس لیے ایسے میڈیا ادارے حکومت سے اشتہارات لیتے رہنے کے لیے ریاست کے مفادات کے تحفظ کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یوں جہاں سیاسی اور سماجی اشرافیہ کے مفادات پر لکھنا اور بولنا بھی بند کر دیا جائے، وہاں عوام کے مفادات کی بات کون کرے؟

دو اقسام کے نئے آن لائن چینل

اس خلا کو پر کرنے کے لیے صحافتی پس منظر رکھنے والے کئی افراد نے اپنے آن لائن چینل بنا رکھے ہیں، جو دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ صحافی جو اپنی توجہ سیاسی امور پر مرکوز رکھتے ہیں مگر حقائق اور غیر جانبدارانہ تجزیوں کے بجائے اپنی رائے کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایسے کئی صحافیوں پر  یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ وہ مختلف سیاسی یا ریاستی گروپوں کے حامی بن کر اپنے پروگرام پیش کرتے ہیں۔

ویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بانی اور کنوینر فوزیہ کلثوم رانا
ویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بانی اور کنوینر فوزیہ کلثوم راناتصویر: Privat

پاکستان میں 'نئی‘ آن لائن صحافت کی دوسری قسم ایسے افراد کی مصروفیات کا دوسرا نام ہے، جو صرف خود کو 'حق پر‘ اور باقی سب کو'غلط‘ سمجھتے ہیں اور جن کی کارکردگی کو 'غیر سیاسی ایکشن جرنلزم‘ یا 'ویجیلانٹی جرنلزم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ خود کو صحافی کہلوانے والے اس دوسری قسم کے افراد ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی لوگوں کے گھروں، کارخانوں، دفتروں اور کاروباری عمارات میں گھس کر اپنی طرف سے مبینہ سماجی برائیوں کا پردہ چاک کرنے کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ایکس پر پابندی حکومت کے حکم پر، پی ٹی اے

ان دونوں اقسام کی آن لائن صحافت کی جگہ پاکستان میں اس لیے بھی موجود ہے کہ مین اسٹریم میڈیا زیادہ تر عوامی دلچسپی کی صحافت نہیں کر رہا۔ انفرادی طور پر کچھ افراد یا ادارے ایسا کر تو رہے ہیں مگر ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ تو پھر پاکستانی میڈیا کو اس کی عوامی مفادات کے تحفظ کی ذمے داری کیسے یاد دلائی جائے؟

’جو ہونا چاہیے، وہ نہیں ہو رہا‘

اس بارے میں اظہار رائے کرتے ہوئے ملک کی خاتون صحافیوں کی تنظیم ویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بانی اور کنوینر فوزیہ کلثوم رانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صرف حقائق پر مبنی خبریں اسی حالت میں صارفین تک پہنچائی جاتیں، ''لیکن غیر جانبدار صحافت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں اور ریاستی گروپوں اور اداروں کی طرف داری کرنے والی صحافت نے پاکستان کی صحافتی برادری کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔‘‘

پاکستان کے ایک غیر سرکاری ادارے 'ارادہ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ماہر قانون آفتاب عالم
پاکستان کے ایک غیر سرکاری ادارے 'ارادہ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ماہر قانون آفتاب عالمتصویر: Privat

پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو ’صنفی ایمرجنسی‘ کا سامنا، رپورٹ

انہوں نے کہا، ''پاکستانی صحافت مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور وحدت کی اس کمی کی وجہ سے بھی ملکی میڈیا تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ ہوا یہ کہ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا اور وہاں سے ڈیجیٹل میڈیا تک کے سفر کے دوران صحافتی اقدار کو بہت نقصان پہنچا۔ نتیجہ یہ کہ اب غیر جانبدار پیشہ ور صحافی کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ رجحان صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی نظر آتا ہے۔‘‘

پاکستان میں ایکس (ٹوئٹر) پر غیر اعلانیہ پابندی کیوں ہے؟

فوزیہ کلثوم رانا نے چند ٹھوس مثالیں دیتے ہوئے بتایا، ''گزشتہ دنوں نگران پاکستانی حکومت کے وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور بی بی سی کے ایک رپورٹر سے متعلق واقعے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ اے بی این کے رپورٹر شاہد عباسی کو پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ایک سوال پوچھنے پر زدوکوب کرنے اور موبائل چھیننے کا واقعہ بھی زیر بحث رہا۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ایک منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شریک تھیں، تو فوٹیج بنانے کی کوشش کے دوران سکیورٹی عملے نے رپورٹر کو جھٹک دیا اور اس کا موبائل فون دور جا گرا۔ ایسے واقعات اب روز کا معمول ہیں۔ لیکن کیا صحافیوں پر بھی لازم نہیں کہ باقاعدہ اجازت کے بعد ویڈیو فوٹیج بنائیں یا انٹرویو کریں؟ اس خرابی کی وجہ ناکافی صحافتی تربیت بھی ہے اور میڈیا میں ریٹنگ کی دوڑ بھی۔‘‘

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا کی ابتر صورتحال کیوں؟

’دو عشروں میں صحافت بہت بدل گئی ہے‘

میڈیا سیفٹی کے شعبے میں فعال پاکستان کے ایک غیرسرکاری ادارے 'ارادہ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ماہر قانون آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں کے دوران صحافت بہت بدل گئی ہے۔ انہوں نے بتایا، ''پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا کے گرتے ہوئے معیار کی بڑی وجوہات میں صحافتی تربیت کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اب صحافت میں ایڈیٹر کا کردار تقریباﹰ ختم ہو گیا ہے۔ کوئی کیمرہ مین ہو یا اینکر، ہر کوئی خود ہی اپنا ایڈیٹر بھی ہے۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پیشہ وارانہ صحافت کم اور کمرشلزم بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ افسوس کی بات اب یہ سوچ بھی ہے کہ میڈیا پر چیخ پکار اور بدتمیزی جتنی زیادہ ہو گی، اتنی ہی اس کی ریٹنگ بھی زیادہ ہو جائے گی۔‘‘

افغان خواتین صحافیوں کو پاکستان میں مشکلات کا سامنا

آفتاب عالم نے مزید کہا کہ کسی بھی معاشرے کی اصلاح صحافیوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ لیکن پاکستان کے نام نہاد صحافیوں نے تو جیسے اس بات کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اسے چاہے جو بھی نام دیں، یہ صحافت تو نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی ہوٹل، دفتر یا نجی پراپرٹی میں بلا اجازت گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کی ہتک کرنا، یہ کوئی جرنلزم نہیں بلکہ قابل سزا جرم ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ایسی نام نہاد صحافت کی وجہ سے بھی پاکستان میں ہر حکومت، چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو، آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگاتی رہتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیقتصویر: Privat

پابندی نہیں تو پی ٹی آئی میڈیا سے غائب کیوں ہے؟

’ارادہ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے الفاظ میں، ''گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) 200 سے زائد صحافیوں کو ایسی ہی صحافت کے باعث نوٹس جاری کر چکی ہے۔ ان میں سے کئی کے خلاف کیس بھی درج کیے گئے۔ مطلب یہ کہ اظہار رائے کی آزادی اور نفرت کے بیانیے میں تفریق نہ کرنے سے جنم لینے والا موقف بھی ڈس انفارمیشن ہی ہے، جو سماج اور خود صحافت دونوں ہی کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔‘‘

’غیر ذمہ دارانہ، سنسنی خیز صحافت ہر صورت میں قابل مذمت‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کے مطابق عالمی سطح پر انسانی سماج اس وقت جس پریشان کن صورت حال کا شکار ہے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آتے ہیں۔ 'ویجیلانٹی جرنلزم‘ اس تحقیقی، تفتیشی صحافت سے یکسر مختلف ہے، جس میں غیر جانبداری کے ساتھ سنجیدہ چھان بین اور ثبوت حاصل کرنے کے بعد ہی کوئی بڑی خبر دی جاتی ہے یا کسی پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے۔

پاکستان کی نوجوان نسل، سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار

’صحافی صحافی ہوتا ہے، مرد یا عورت نہیں‘

انہوں نے کہا، ''ویجیلانٹی جرنلزم کی بنیاد ایک خاص طرح کے سیاسی اور سرکاری عمل سے جڑی ہے، جس میں کسی بھی تحقیق کے بغیر الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ افراد، اداروں، حکومتوں اور ریاستوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے۔ لیکن یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ کسی کی بھی نجی زندگی میں مداخلت انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔‘‘

پاکستان میں صحافت ایک کاروبار اورمیڈیا کرپشن کا شکار ہے، داؤ پرکیا کچھ لگا ہے ؟

حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز صحافت اپنی ہر صورت میں قابل مذمت ہے۔ چاہے ایسا مین اسٹریم جرنلسٹ کریں یا کوئی دوسرا۔

انہوں نے کہا، ''میں بھرپور آزادی اظہار کا حامی ہوں۔ لیکن آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ کا پرچار کیا جائے یا پھر ذاتی مقاصد کے حصول یا صرف اپنے ہی نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے جائیں۔ یہ بھی نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہے بلکہ لوگوں کے بنیادی انفرادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔‘‘

خاتون صحافی پاکستان میں کتنی محفوظ؟