1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

پاکستان میں تتلیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے

28 مئی 2023

گزشتہ ایک عشرے میں پاکستان میں بھی تتلیاں تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئی عالمی درجۂ حرارت کے علاوہ فصلوں پر غیر معیاری سپرے کے باعث تتلیوں کی انواع اقسام معدومی کے خدشے سے دوچار ہیں۔

https://p.dw.com/p/4RrhN
تصویر: Creative Touch Imaging Ltd./NurPhoto/picture alliance

پاکستان میں تتلیوں کی آبادی میں کمی کے حوالے سے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ڈوئچے ویلے نے ماہرین سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں ان کی آبادی میں کمی کی اصل وجوہات کیا ہیں۔

تتلیوں کی آبادی تیزی سے کم کیوں ہو رہی ہے؟

ایرڈ ایگری کلچر یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبۂ اینٹا مولوجی (علم ِحشرات) سے وابستہ ڈاکٹرعمران بودلہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کچھ عرصے پہلے تک اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تتلیوں کی بہت سی نادر اقسام بڑی تعداد میں پائی جاتی تھیں، جو اب گھٹ کر تقریبا آدھی رہ گئی ہیں۔

 

Deutschland Kirschblüte
مقامی پودوں کی تعداد کم ہونے سے تتلیوں کی آبادی بھی گھٹ رہی ہےتصویر: Andreas Lander/picture-alliance

ان کے بقول اس کی بڑی وجوہات درجۂ حرارت میں بتدریج اضافہ، شہری علاقوں کا پھیلاؤ، ماحولیاتی تبدیلیاں اور فصلوں پر غیرمعیاری ادویات کا سپرے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تتلیاں اپنے جسم کے درجۂ حرارت کو از خود کنٹرول نہیں کر پاتیں، ''اسی لیے ان کے مسکن سایہ دار جگہوں پر ہوتے ہیں۔ جنگلات کے کٹاؤ اور شہری علاقوں کے پھیلاؤ کے باعث سایہ دار جگہیں گھٹ رہی ہیں، جس سے تتلیوں کے قدرتی مسکن تباہ ہو رہے ہیں۔‘‘

صرف شمالی امریکہ میں دس سال کے دوران مونارچ بٹر فلائی کی آبادی 22 سے 72 فیصد تک کم ہوئی ہے۔ یہ تتلیاں ہر برس لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے دوسرے علاقوں تک جاتی اور پولینیشن کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کہا جاتا تھا۔

تتلیوں کی پولی نیشن میں اہمیت

یونیورسٹی آف گجرات میں شعبۂ حیوانات (زولوجی) سے وابستہ مبین غضنفر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تتلیاں ماحول میں توازن برقرار رکھنے میں معاونت کرتی ہیں اور ان کی بہت سی اقسام دور دراز علاقوں تک ہجرت کرتی ہیں۔ اس دوران یہ پولی نیشن کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جس سے پودوں میں جینیاتی تغیرات ہوتے ہیں۔

مبین غضنفر کے مطابق سادہ انداز میں پولی نیشن کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس عمل میں پھولوں کے نر اور مادہ حصوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہ ملاپ اگر زیادہ فاصلے پر اگے پودوں کے درمیان ہو تو ان کی نئی انواع جنم لیتی ہیں۔ 

مبین بتاتے ہیں کہ پھولوں کا رس تتلیوں کی غذا ہے، جسے نیکٹر کہا جاتا ہے۔ اس نیکٹر میں غذائیت سے بھرپور کئی وٹامنز، شوگر، امائنو ایسڈ اور چکنائی یا لیپڈز ہوتے ہیں، جو تتلیوں کے علاوہ کئی دیگر پولینیٹرز کی غذا کا اہم حصہ ہیں۔ تتلیاں اس رس کے لیے جب پھولوں پر آتی ہیں تو کچھ پولن ان کے جسم سے چپک جاتے ہیں۔ کسی دوسرے پھول پر جانے سے یہ پولن وہاں منتقل ہو کر پودوں کے جنسی عمل کو مکمل کرتے ہیں۔

مبین غضنفر کے مطابق دنیا بھر میں مختلف رنگوں اور سائز کی 28 ہزار اقسام کی تتلیاں ہیں، جن میں سے 80 فیصد گرم خطوں میں پائی جاتی ہیں، جس میں جنوبی ایشیاء بھی شامل ہے۔ ان تمام اقسام کی بقا کا انحصار پھولوں اور پکے ہوئے پھلوں کے نیکٹر پر ہوتا ہے۔

تتلیاں نا صرف ماحول میں توازن بر قرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ حیوانات کی فوڈ چین کا بھی اہم حصہ ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ برس میں دنیا بھر میں تتلیوں کی آبادی میں تقریبا 58 فیصد تک کم ہوئی ہے ۔

تتلیاں ماحول میں توازن کس طرح قائم کرتی ہیں؟

مبین غضنفر بتاتے ہیں کہ کسی ایکو سسٹم میں جانور، حشرات، پرندے، کیڑے مکوڑے وغیرہ ایک باہمی (میوچل) تعلق میں رہتے ہیں۔ جسامت میں بڑے جانور چھوٹے جانوروں کو کھاتے ہیں جن کی خوراک کیڑے یا حشرات ہوتے ہیں۔ تتلیاں بھی اس فوڈ چین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 

فصلوں پر سپرے اور مونو کلچر کے اثرات

ڈاکٹر عمران بودلہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں فصلوں کی حفاظت کے لیے جو کیمیائی سپرے استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے بے ضرر حشرات براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور ان میں تتلیاں بھی شامل ہیں۔

سپرے والی ادویات اور کیمیائی کھاد میں نائٹروجن اور فاسفورس کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ ان کے استعمال سے فصل کے پودوں کے ساتھ اگنے والے مقامی پودوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ تتلیاں اپنی بقا کے لیے ان مقامی پودوں پر انحصار کرتی ہیں۔ 

 ڈاکٹر عمران کے مطابق کسی مخصوص علاقے کے مقامی پودوں، انویسو پلانٹس (خود روپودے) اور فصل کے پودوں کے درمیان باہمی تعلق ہوتا ہے، جسے سائنسی اصطلاح میں مونو کلچر کہا جاتا ہے۔ انویسو پلانٹس مقامی پودوں کے ساتھ مل کر حشرات، فصلی بیماریوں وغیرہ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مونو کلچر میں ذرا سا بگاڑ پورے سسٹم کو متاثر کرتا ہے۔ ڈاکٹر بودلہ کے بقول مقامی پودوں کی تعداد کم ہونے سے تتلیوں کی آبادی بھی گھٹ رہی ہے اور ان کی کئی انواع معدومی کے خدشے سے دوچار ہیں۔

تتلیوں کی حفاظت کے لیے کون سے اقدامات نا گزیر ہیں؟

ڈاکٹر عمران بودلہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے تتلیاں بھی یکساں متاثر ہوئی ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ سایہ دار جگہوں کی ضرورت ہے، ''عام افراد کو گھروں میں زیادہ پھولوں اور رس دار پھلوں والے پودے لگانے چاہیں۔ اس طرح تتلیاں گھروں کا رخ کریں گی، جس سے ناصرف گھر خوش نما دکھائی دیں گے بلکہ تتلیوں کو بھی سایہ دار جگہیں میسر آئیں گی۔‘‘

اس حوالے سے مبین غضنفر کا کہنا ہے کہ مونو کلچر سے تتلیوں کی آبادی کو پہنچنے والے نقصان اور سدباب کے لیے پاکستان میں وسیع پیمانے پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں مختلف علاقوں میں تتلیوں کی تعداد پر تحقیق کر کے اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں۔ مگر غیر معیاری زرعی پریکٹسز سے انہیں جو نقصان پہنچ رہا ہے اس حوالے سے تحقیق کا فقدان ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ فی الحال فصلوں پر سپرے اور کیمیائی کھاد کا استعمال مکمل طور پر ترک کرنا ممکن نہیں لیکن آرگینک فارمنگ کے طریقوں کو فروغ دے کر ان کا استعمال کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

آرگینک فارمنگ میں سائنتھیٹک (مصنوعی) کھاد اور ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں نقصان دہ کیمیکلز کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اسی طرح  مؤثر منصوبہ بندی اور تحقیق سے تتلیوں کی نشونما کے لیے نرسریاں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے تتلیوں کی اقسام پر اثرات