1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہارپاکستان

پاکستان: ایکس تک رسائی مشکل، وی پی این ڈاؤن لوڈز میں اضافہ

عبدالستار، اسلام آباد
11 اپریل 2024

وی پی این کے ڈاؤن لوڈ کو مانیٹر کرنے والی ٹاپ 10 وی پی این ڈاٹ کام کے مطابق اس میں انیس فروری کے بعد اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے ہیں۔ ماہرین اور سیاست دانوں کے مطابق یہ اضافہ ایکس پر پابندی کی وجہ سے ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/4efT6
Illustration | VPN
تصویر: Rafael Henrique/ZUMAPRESS/picture alliance

top10vpn.com کے مطابق یہ اضافہ 19 فروری کو 131 فیصد رہا اور دوسرے دن یہ اضافہ تقریباً 91 فیصد کے گراف پر آگیا اور فروری کے اختتام پر 80 کے گراف پر چلا گیا۔

جب جب پاکستانی حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی ہے، تب تب اس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔  مثال کے طور پر نو مئی 2023 ء کی ہنگامہ آرائی کے بعد پاکستانی حکام نے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور ٹوئٹر کو بند کر دیا، تو بھی ملک میں وی پی این سافٹ ویئر کے ڈاؤن لوڈز میں ایک مرحلے پر 13 گنا سے بھی زیادہ تک کا اضافہ ہو گیا تھا۔

لاکھوں لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی جس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا یہ ماننا تھا کہ ان کے کارکنان نے  ایکس پہ پابندی کے بعد وی پی این ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما فیصل شیر جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لاکھوں کی تعداد میں ہمارے کارکنان اور حمایتیوں نے وی پی این ڈاؤن لوڈ کیا ہے کیونکہ حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے حالانکہ وزیراعظم اس پابندی کے باوجود ایکس کو استعمال بھی کر رہے ہیں اور اس پر اپنے پیغامات بھی لوڈ کر رہے ہیں۔

فیصل شیر جان کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں وی پی این کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے لوگوں کو روکے۔

Infografik VPN EN
بہت سارے وی پی این فری ڈاؤن لوڈ کی شکل میں موجود ہیں

ماضی کی پابندیاں

واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ستمبر 2022 ء میں پبلک سیکٹر، پرائیویٹ سیکٹر، سفارت خانوں اور فری لانسرز سے یہ کہا تھا کہ وہ 31 اکتوبر تک وی پی این کے استعمال کے لیے خود کو پی ٹی اے سے رجسٹرڈ کرائیں۔

پی ٹی اے نے اسی برس جون میں سب سے پہلے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا تھا کہ وہ وی پی این کے استعمال کے لیے رجسٹریشن کرائیں۔ پی ٹی اے رجسٹریشن کے بغیر اس کے استعمال کو قوائد کے خلاف قرار دیا تھا۔

مثالی اسسٹنٹ کمشنر، جو بھیس بدل کر ذمہ داریاں نبھاتا ہے

واضح رہے کہ وی پی این کے استعمال سے صارفین ان ویب سائٹس تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں، جن پر حکومت نے پابندی لگائی ہو۔ اس سے وہ محفوظ طریقے سے ای میل بھی بھیج سکتے ہیں۔

بہت سارے فری لانسرز، کاروباری افراد، خصوصاً اکاؤنٹس  سے متعلق پروفیشنلز، اس کو استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کیونکہ بہت سارے وی پی این فری ڈاؤن لوڈ کی شکل میں موجود ہیں اس لیے عوام کی اکثریت پی ٹی اے سے رجسٹر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی ماہر فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ بہت سارے فری لانسرز سافٹ ویئر ہاوسیز میں کام کرنے والے افراد اور بہت سے فائننشل سیکٹر میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں اس وقت وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔  بہت سارے افراد کاروبار اور مارکیٹینگ کے لیے بھی ایکس کو استعمال کرتے ہیں۔ فہد ابدالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومتی پابندیوں کی وجہ سے ان لوگوں کا کام متاثر ہورہا ہے۔ تو ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے ڈاؤن لوڈ میں یقیناً بہت اضافہ ہوا ہے۔‘‘

Kommunikationsplattform X I Elon Musk
2023 میں پاکستانی حکام نے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور ٹوئٹر کو بند کر دیاتصویر: Monika Skolimowska/dpa/picture alliance

فہد ابدالی کے مطابق اس کی اصل تعداد کا اندازہ مشکل ہے کیونکہ یہ ڈیٹا مختلف وی پی این کمپنیوں کے پاس ہوتا ہے۔

پاکستان  پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور ڈپٹی میئر سکھر محمد ارشد مغل کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔  ارشد مغل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ظاہر ہے حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیے ہمارے کارکنان سمیت بہت سارے لوگ اس کو استعمال کر رہے ہے۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی مشہور کاروباری شخصیت امجد اللہ خان کا کہنا ہے کہ بزنس کمیونٹی اس پابندی پر پریشان ہے۔ امجد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پہلے ملک میں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ اب حکومت نے ایکس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع کردی ہے اور اس پر پابندی لگادی ہے۔‘‘

کاروباری افراد اس پابندی سے پریشان ہیں۔ ''پروفیشنلز اور کاروباری افراد اس وجہ سے وی پی این بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ سیاسی خبروں کے لیے بھی ایسا کررہے ہیں کیونکہ سیاست کا بھی کاروبار پر بہت اثر ہوتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے پی ٹی اے کے حکام سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور نہ ہی انہوں نے تحریری سوالات کے جوابات بھیجے۔