1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، رمضان اور حاملہ خواتین کے ساتھ ہونے والا برتاؤ

عاصمہ کنڈی
21 مارچ 2024

پاکستان میں ڈاکٹر کے مشورے پر روزے ترک کرنے والی حاملہ خواتین کو، معاشرے میں بہت سے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طبی وجوہات کی بنا پر بھی کسی کے سامنے کھانا پینا، ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4dxg4
Schwangere Frau mit Babybauch
تصویر: Fleig/imago images/Eibner

آج سے دو سال قبل نگہت جو پہلی بار ماں بن رہی تھی، ان کا آخری مہینہ چل رہا تھا اور وہ ڈاکٹر کے مشورے سے آخری عشرے کے روزے چھوڑنے پر مجبور تھیں۔ جب وہ اسلام آباد میں واقع کراچی کمپنی بازار میں کسی ضروری کام سے گئیں اور طبیعت بگڑنے پر ایک بیکری سے پانی لے کر پینے لگیں تو ایک باریش دوکاندار نے جھڑک دیا اور دوکان سے باہر نکال دیا۔ وجہ یہ تھی کہ رمضان کا مہنہ تھا اور نگہت سب کے سامنے پانی پی رہی تھیں۔ 
پاکستان میں حاملہ عورتین جو ڈاکٹر کے مشورے سےروزے چھوڑتی ہیں وہ معاشرے میں بہت سے منفی رویوں کا سامنا کرتی ہیں۔ کبھی سسرال کی جانب سے روزہ چھوڑنے پر طعنے سننے کو ملتے ہیں، تو کبھی معاشرے کے دیگر حلقوں کی جانب سے۔  وہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی کسی کے سامنے کھا پی نہیں سکیتں۔ حمل میں روزہ ترک کرنے کی اجازت دین بھی دیتا ہے مگرپاکستانی معاشرہ ان کو یہ چھوٹ دینے کو کسی طور پر تیار نہیں ہے۔

ثنا قریشی کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ جن کے حمل کا ابھی تیسرا مہینہ شروع ہوا ہے اور متلی کی وجہ سے وہ کچھ کھا پی نہیں سکتیں۔ کمزوری کی وجہ سے ڈاکٹر نے انہیں روزہ نا رکھنےکا مشورہ دیا ہے۔ مگر ان کی ساس کو یہ بات پسند نہیں آئی، جس کی وجہ سے ثناء اپنے گھر میں ہی مجرم بن گئیں۔ انہوں نے ساس کے طعنوں سے بچنے کے لیے روزے رکھنا شروع کر دیے اور دوسرے ہی دن بے ہوش ہو کر ہسپتال پہنچ گئیں، جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا فشار خون خطرناک حڈ تک کم ہے۔ 


ثناء نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ساس کے سامنے کچھ بھی کھا پی نہیں سکتیں۔ انہیں مسلسل لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اور روزے چھوڑو، اللہ پاک ناراض نہیں ہو گا تو اور کیا ہوگا۔
ثنا کہتی ہیں، "میری ساس مجھے کہتی ہیں کہ میں نے سات بچے پیدا کیے کچھ رمضان میں بھی ہوئے مگر مجال ہے کبھی روزہ چھوڑا ہو۔ آج کل کی لڑکیاں بہت نازک مزاج ہوتی ہیں بات بات پر روزہ چھوڑنا ان کے لیے معمولی بات ہے۔"
ڈاکٹر مہوش لاکھانی، جو اسلام آباد میں گائناکالوجسٹ ہیں، نے ڈی ڈبلیو کر بتایا کہ وہ حاملہ خواتین جو حمل کے ابتدائی یا آخری مراحل سے گزر رہی ہوتیں ہیں، وہ رمضان میں ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم ان کو روزہ چھوڑنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور خاص طور پر یہ خواتین اگر کسی اور بیماری جیسے کہ بلڈ پریشر، شوگر یا تھائیرائیڈ کی بیماری کا شکار ہوں تو ان کے لیے روزہ نا رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ 


مذہبی اسکالر عبید الرحمن، جو ایف ایٹ میں واقع مسجد رحمت اللالمین کے سربراہ ہیں، نے اسی حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حاملہ خواتین کے روزے کے بارے میں تین مختلف موقف ہیں، پہلا کہ وہ روزہ چھوڑ کر باقی دنوں میں اس کی قضا کریں۔  دوسرا کہ قضہ روزے کا فڈیہ ادا کریں اور بعد میں جب بھی ممکن ہو توقضاء  روزے رکھ لیں اور تیسرا یہ کہ خواتین فدیہ دینے کے بعد قضاء نہ پورا کریں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مڈیکل سائنس اور دین اسلام تو عورت کو یہ حق دیتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں عورت کو جائز کام کرنے کے لیے بھی معاشرے کے اصولوں اور گھر کے بااختیار افراد کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ انھوں نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں تبدیلی ایسی خواتین کی حالت میں بہتری لا سکتا ہے کیونہ ہمارا دین عورت کو مکمل بااختیار بناتا ہے، مگر ہمارا معاشرہ لاعلمی کی وجہ سے عورت پر قدغنیں لگاتا ہے۔

Asma Kundi
عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔