1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان، بجلی کا بحران زرمبادلہ سے کیسے جڑا ہوا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
4 جولائی 2022

پاکستان میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران پر وزیر اعظم شہباز شریف نے حکم دیا ہے کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے ایسے پلانٹس کھول دیں، جو بند پڑے ہیں لیکن اس فیصلے کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

https://p.dw.com/p/4Ddb2
Hochspannungsleitungen in Finnland
تصویر: Olli Häkamies/Lehtikuva/dpa/picture alliance

وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کے روز ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بند پلانٹس فعال بنانے کا حکم دیا تھا، جس پر کئی ماہرین تنقید کر رہے ہیں اور اسے جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

توانائی کی صورت حال

اس وقت ملک میں میں بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار میگا واٹ سے زیادہ ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق یہ شارٹ فال سات ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے جبکہ بجلی کی پیداوار اکیس ہزار دو سو تیرہ میگاواٹ ہے۔ ملک میں بجلی کی طلب بڑھ گئی ہے اور یہ تقریباً انتیس ہزار میگاواٹ ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک میں ایسے پاور پلانٹس لگائے گئے ہیں، جو درآمد شدہ کوئلے، تیل یا ایل این جی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی پلانٹس پی ایم ایل این کی 2013ء سے 2018ء تک قائم رہنے والی حکومت نے لگائے تھے، جس کی وجہ سے زرمبادلہ پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور توانائی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کا گردشی قرض بھی بڑھا ہے۔

قرضوں میں اضافہ

ماہرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے اس حکم کے بعد شاید حکومت وقتی طور پر توانائی کے بحران کو قابو کر لے لیکن اگر اسے طویل المدتی معیار پر پرکھا جائے تو یہ فیصلہ نہ صرف معیشت پر منفی اثرات مرتب کرے گا بلکہ پاکستان کے گردشی قرضوں اور بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ کرے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے تیل، ایل این جی یا جو کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے، اس پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کے لیے حکومت نے حال ہی میں پچیس ملین ڈالر ہر ہفتے مختص کیے ہیں اور یہ نسبتا سستا کوئلہ ہے۔ اگر بین الاقوامی مارکیٹ سے کوئلہ خریدا جائے تو یہ مزید مہنگا پڑے گا۔

پاکستان میں توانائی کے امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک میں پاور پلانٹس کی ایک بڑی تعداد کوئلے، تیل اور ایل این جی پر انحصار کرتی ہے۔ اور یہ سب درآمد کیا جاتا ہے، جس کے لیے زرمبادلہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نجی پاور کمپنیوں کو کہا جائے گا کہ وہ بجلی پیدا کریں اور حکومت کے پاس ان کو ادائیگی کے پیسے نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے گردشی قرض بھی بڑھے گا اور زرمبادلہ بھی کم ہو گا۔ یہ کم ہونے کی وجہ سے پاکستان کو پھر بیرونی دنیا سے بھی قرض لینا پڑے گا۔‘‘

اجارہ داری ختم کریں

 ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا تھا کہ اگر حکومت صحیح معنوں میں توانائی کے بحران کو قابو میں لانا چاہتی ہے تو اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ نجی کمپنیوں کو نہ صرف بجلی پیدا کرنے کی اجازت دے بلکہ انہیں اس بات کی بھی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ براہ راست یہ بجلی صارف کو بیچیں، ''اس کے علاوہ سندھ کے کئی علاقوں میں میں ونڈ سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے اور ملک کے کئی علاقے سولر انرجی کے لیے موزوں ہیں۔ سولر انرجی نے بہت ترقی کر لی ہے اور اب اس کی گیگا بیٹری بھی آ گئی ہے، جو تین سو میگا واٹ تک بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ کئی مغربی ممالک اس طریقے سے پورے پورے شہروں کو بجلی فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت متبادل ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے ذرائع اپنائے، اس سے زرمبادلہ بھی بچے گا اور حکومت کو بہت زیادہ قرضہ بھی نہیں لینا پڑے گا۔

’غیر دانشمندانہ فیصلہ‘

ماضی میں وزرات خزانہ میں مشیر کے طور پر کام کرنے والے خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ حکومت کو کوئلے کے حوالے سے خود کفالت کی طرف جانا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عالمی مارکیٹ میں تیل، ایل این جی اور کوئلے کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیش نظر یقیناﹰ یہ فیصلہ پاکستان کو مہنگا پڑے گا۔ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بجلی کی بچت کی طرف جانا چاہیے۔ کمرشل علاقوں کو جلد بند کرنا چاہیے۔ تیل، کوئلے اور ایل این جی کی جگہ آبی ذرائع سے بجلی پیدا کرنا چاہیے۔‘‘