1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک ایران گیس پائپ لائن: پاکستان کو امریکی پابندیوں کا خطرہ

12 مارچ 2013

پاکستان نے اگر ایران کے ساتھ مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں، تو امریکا کی طرف سے اسلام آباد کے خلاف پابندیاں عائد کیے جانے کا خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/17vPL
تصویر: Getty Images

اسلام آباد اور تہران کے مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبے کی وجہ سے امریکا کی طرف سے پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کیے جانے کے امکانات کا واضح اشارہ واشنگٹں میں امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے دیا گیا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نُولینڈ نے صحافیوں کو بتایا، ’امریکا میں اس منصوبے پر شدید قسم کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اگر اس منصوبے پر واقعی عمل درآمد شروع ہو گیا تو ممکن ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق امریکی قانون کے تحت فیصلے لازمی ہو جائیں‘۔ امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اس بارے میں پاکستانی قیادت کے ساتھ اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کر چکا ہے۔

Pipelinebau Iran Pakistan Ahmadinejad und Zardari
پاکستانی اور ایرانی صدور پائپ لائن کے افتتاح کے موقع پر دعا مانگتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان اور ایران کے درمیان اس منصوبے پر ابتدائی بات چیت 1994ء میں شروع ہوئی تھی۔ شروع میں اس منصوبے میں بھارت بھی شامل تھا، جسے پاکستان کے راستے ایرانی گیس فراہم کی جانا تھی۔ تاہم بعد میں بھارت اس منصوبے سے علیحدہ ہو گیا تھا کیونکہ ماہرین کے بقول وہ امریکا کے ساتھ سول مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ کرنا چاہتا تھا اور نئی دہلی کی خواہش تھی کہ ایران اور پاکستان کے ساتھ اس معاہدے میں بھارت کی شمولیت واشنگٹن کے ساتھ کسی اختلاف رائے کا سبب نہ بنے۔

ایران اس منصوبے کے تحت پاکستانی سرحد کے قریب تک پائپ لائن بچھا بھی چکا ہے اور اس کے باقی حصے پر کام کا افتتاح کل پیر کے روز پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور ان کے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژاد نے مل کر کیا تھا۔

اس پس منظر میں واشنگٹن میں دفتر خارجہ کی ترجمان نُولینڈ نے کہا، ’ہم اس پائپ لائن سے متعلق ماضی میں بھی دس پندرہ مرتبہ اعلانات سن چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ہوتا کیا ہے؟‘

امریکا پاکستان کو ایران کے ساتھ اس پائپ لائن منصوبے میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے ماضی میں مختلف طرح کے متبادل منصوبوں کی تلاش میں رہا ہے۔ اب بھی امریکا کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ اس معاہدے میں شمولیت ’پاکستان کو ایک ایسے وقت پر غلط سمت میں لے جائے گی جب واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ اس کی توانائی کی ضروریات کو بہتر اور زیادہ قابل اعتبار طریقے سے پورا کرنے کی کوششوں میں ہے‘۔

وکٹوریہ نُولینڈ کے بقول امریکا پاکستان میں توانائی کی فراہمی کے ایسے بڑے بڑے منصوبوں میں مدد کر رہا ہے، جن کے نتیجے میں سال رواں کے آخر تک بجلی کے پاکستانی نیشنل گِرڈ کی صلاحیت میں 900 میگا واٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ ان منصوبوں میں تربیلا اور منگلا ڈیم کے بجلی گھروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے علاوہ دیگر پاور پلانٹس کو جدید بنانے اور ست پارہ اور گومل زم کے نئے ڈیم تعمیر کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

Victoria Nuland
وکٹویہ نُولینڈتصویر: Getty Images

پاک ایران گیس پائپ لائن 1650 کلو میٹر طویل ہو گی، جس کے 750 کلو میٹر طویل پاکستانی حصے کی تعمیر پر قریب 1.5 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ پروگرام کے مطابق دسمبر 2014ء تک پاکستان کو اس پائپ لائن کے ذریعے ایران سے روزانہ 21.5 ملین کیوبک میٹر گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔

جرمن نشریاتی ادارے ARD کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس پائپ لائن کی تعمیر کی تیاریوں میں ایک جرمن کمپنی ILF کنسلٹنگ انجینئرز بھی شامل ہے۔

جرمنی میں معیشت اور برآمدات پر کنٹرول کے وفاقی دفتر Bafa کے مطابق اب تک آئی ایل ایف نامی کمپنی یورپی یونین کے قوانین کی کسی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں ہوئی۔ تاہم خود اس کمپنی کی طرف سے یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آیا پائپ لائن منصوبے کے سلسلے میں پاکستان میں اس کی مصروفیات ایران کے خلاف اقوام متحدہ اور امریکا کی عائد کردہ پابندیوں سے بھی ہم آہنگ ہیں۔

mm / aba (afp, dpa)