1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس

شکور رحیم ، اسلام آباد9 دسمبر 2014

پاک ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ایرانی وزیر خزانہ ڈاکٹر علی طائب نیا نے منگل کے روز اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/1E1TD
تصویر: Getty Images

اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس توقع کا اظہارکیا ہے کہ پاک ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس سے دونوں ممالک کے درمیان نئے شعبوں میں تعاون کا آغاز ممکن ہو سکے گا۔ اس ملاقات میں پاک ایران دوطرفہ تعلقات بالخصوص اقتصادی جہتوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیاگیا۔ بیان کے مطابق دونوں ممالک تجارتی و اقتصادی تعاون کے لیے مضبوط دوطرفہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

اس موقع پر پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔ دونوں ممالک کے وزراء خزانہ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کرنا تھا تاہم بعد ازاں جسے ملتوی کر دیا گیا۔

اس سے قبل مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس میں امریکا اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ تجارت میں بینکوں کے مسائل، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے نفاذ میں تیزی کوئٹہ سے تفتان تک ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن اور نوشکی سے دالبندین تک مرکزی شاہراہ کی بہتری کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

Karte TAPI Gas-Pipeline Englisch NEU

خیال رہے کہ ایران سے پاکستان کو قدرتی گیس کی درآمدکے لیے اربوں ڈالر کی لاگت سے شروع کیا جانے والا پائپ لائن منصوبہ بظاہر امریکی مخالفت کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات میں کم ہوتی کشیدگی سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ’’میرا خیال ہے کہ اگر ایران کو داعش کے خلاف استعمال کرنا ہے تو امریکا کو تھوڑی سی لچک دکھانا ہوگی اور اس لچک کا شاید فائدہ ہمیں یہ ہو جائے کہ گیس پائپ لائن آگے بڑھ جائے۔ اس کا یہ فائدہ بھی پاکستان کو اٹھانا چاہیے کہ ایران کے ساتھ گیس کے نرخ دوبارہ طہ کرے کیونکہ سابقہ حکومت نے ضرورت سے زیادہ نرخ طے کیے تھے‘‘۔

پاکستان اور ایران کے درمیان گزشتہ دنوں سرحد پر کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی تھی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو سرحدی خلاف ورزیوں سے باز رہنے کا انتباہ بھی کیا تھا۔ دفاعی امور کی تجزیہ کار ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام اور خطے کی بہتری کے لیے پاکستان اور ایران کو مل کر کام کرنا ہو گا۔’’ اگرچہ ایران نے پچھلے دنوں پاکستان کے ساتھ تعلقات مین اپنی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ امریکا کے ساتھ سرد مہری میں جو کمی آئی ہے اس کی وجہ سے وہ علاقائی بلادستی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاک ایران تعلقات دونوں ممالک کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔‘‘

دریں اثناء ایران اور پاکستان کے درمیان اسلام آباد میں مفاہمت کی چار یاداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ ان مفاہمت کی یادداشتوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کمیٹی کے قیام، دونوں مالک کی چھوٹی صنعتوں میں تعاون، گوادر اور چاہ بہار کی بندرگاہوں کو سسٹر پورٹس قرار دینے اور دستکاریوں کے شعبے میں تعاون شامل ہے۔