1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک ایران سرحدی علاقوں میں بڑھتی کشیدگی، وجوہات کیا ہیں؟

13 جنوری 2023

پاک ایران سرحدی علاقوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے خطے میں مجموعی سلامتی کی صورتحال شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ایرانی صوبہ سیستان بلوچسان، کردستان اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ دیگر کئی علاقوں کو شورش نے لپیٹ میں لے لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4M80r
زاہدان میں مظاہرے کا ایک منظر
زاہدان میں مظاہرے کا ایک منظرتصویر: UGC

مبصرین کا کہنا ہے کہ دو طرفہ سرحدی سیکورٹی اور معاشی استحکام کے لیے نتیجہ خیز اقدامات نہ کیے گئے تو بدامنی کی یہ تازہ لہر خطے کے دیگر حصوں تک پھیل سکتی ہے۔

پاک ایران بارڈر کمیٹی کا دو روزہ اہم اجلاس بھی آج شروع ہوا ہے جس میں باہمی تجارتی معاملات سمیت دیگر کئی اہم امور کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ایران میں مقامی فورسز کی مبینہ حراست کے دوران گزشتہ برس اکتوبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف جاری احتجاج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔

ایرانی سرحدی علاقے زاہدان، کردستان، اصفہان، چابہار اور بعض دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر ایرانی حکومت کے خلاف آج بھی نمازجمعہ کے اجتماعات کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے اقدامات اور تہران حکومت کی اقلیتی سنی برادری سے متعلق پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

کشیدگی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان کے دفاعی امور کے ایک سینئرتجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ پاک ایران سرحدی علاقوں میں شورش غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں حالیہ شورش کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال شروع ہونے والے ناخوشگوار واقعات سے نمٹنے کے لیے ایرانی حکومت نے طاقت کا جو بے دریغ استعمال کیا، اس سے حالات مزید خراب ہوئے۔ شورش سے متاثرہ علاقوں کی جغرافیائی صورتحال ملک کے دیگر حصوں سے یکسر مختلف ہے۔ سیستان بلوچستان اور کردستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں مقیم آبادی کے تحفظات دور نہیں کیے جا رہے ہیں۔ مقامی فورسز کے اقدمات کے خلاف ایرانی بلوچوں کی جانب سے جو شکایات سامنے آ رہی ہیں انہیں نظر انداز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں حکومت کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور مقامی لوگوں نے احتجاج کا راستہ اپنایا ہے۔"

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ سرحدی سکیورٹی کے معاملات بہتر بنانے کے لیے جامع اقدمات کی ضرورت ہے تاکہ شرپسندوں کے عزائم کامیاب نہ ہو سکیں۔

انہوں نے مزید کہا، "اس وقت ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقے شورش کا اس لیے بھی شکار ہیں کیونکہ وہاں عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے۔ ایران سرحدی علاقوں میں ایسے کئی عسکریت پسند روپوش ہیں جن سے دونوں ممالک میں قیام امن کی صورتحال متاثر ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ہونے والے کئی حملوں میں بھی ایسے ہی عسکریت پسند ملوث رہے ہیں۔ پاکستان کی سابقہ حکومت نے سفارتی سطح پر بھی یہ معاملہ ایرانی حکومت کے سامنے اٹھایا تھا۔"

کشیدگی کے سبب دوطرفہ تجارت بھی متاثر

ایرانی سرحدی علاقوں میں مقیم لوگوں میں اکثریت بلوچ قبائل کی ہے جو کہ عرصہ دراز سے ایرانی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ایران سے متصل بلوچستان کا سرحدی علاقہ قریب ایک ہزار کلو میٹر پر محیط ہے۔ مقامی آبادی کی معیشت سرحد پر قائم انٹری پوائنٹس سے ہونے والی دو طرفہ تجارت سے وابستہ ہے۔

بلوچستان کے علاقے تفتان میں مقیم 55 سالہ تاجر محمد داؤد عیسٰی زئی ایران سے پاکستان ایل پی جی گیس درآمد کرتے ہیں۔ داؤد کے خاندان کے کچھ افراد ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے علاقے زاہدان میں مقیم ہیں۔

داؤد عیسیٰ زئی کہتے ہیں کہ امریکی معاشی پابندیوں کے بعد دوطرفہ تجارت کو سب سے زیادہ نقصان سرحدی علاقوں میں جاری حالیہ شورش نے پہنچایا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا، "یہاں مقامی آبادی کی معیشت کا 90 فیصد دارومدار سرحدی تجارت پر ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے کیچ، پنجگور، گوادر تفتان اور دیگرعلاقوں میں قائم بارڈر انٹری پوائنٹس سے ہونے والی تجارت گزشتہ ایک سال سے شدید متاثر ہے۔ مقامی لوگوں کے تحفظات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اکثر اوقات بدامنی کے واقعات کے بعد بارڈر انٹری پوائنٹس کئی کئی یوم تک بند رہتے ہیں۔ جب یہ انٹری پوائنٹس بند ہو جاتے ہیں تو مقامی آبادی اس قدر متاثر ہوتی ہے کہ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔"

داؤد عیسیٰ زئی کا کہنا تھا کہ ایران سے درآمدات کا حجم بھی ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کے اب تک جو بھی دعوے سامنے آئے ہیں، ان میں کسی کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ تجارت بڑھا کر حجم پانچ ارب ڑالر تک پہنچا دیا جائے گا، لیکن یہ تجارت اس وقت اس حجم سے بھی بہت کم ہے جو کہ آج سے چند سال پہلے تھا۔

داؤد کے بقول، ’’بلوچستان کے چیمبر آف کامرس نے بھی یہ معاملہ متعلقہ حکام کے سامنے اٹھایا تھا لیکن اب تک کوئی بہتری سامنے نہیں آئی ہے۔ پاکستانی تاجروں کا تجارتی سامان بھی اکثر اوقات ایران میں کئی کئی ہفتے روکا جاتا ہے۔‘‘

دونوں ممالک کے لیے اس خطے کی اہمیت

علاقائی سلامتی کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ ایران کے لیے پاکستان اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "سرحدی علاقوں میں شورش کا خاتمہ ایران کی داخلی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکام جنوب مغربی سرحدی علاقوں میں شورش کچلنے کے لیے ہرممکن اقدمات کر رہے ہیں۔ ایران کے لیے چابہار کی بندرگاہ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اسی لیے تہران یہ نہیں چاہتا کہ حالیہ شورش سے خطے میں ایرانی اثرورسوخ کم ہو۔"

پاکستان ایران سرحد پر تیل کی خطرناک اسمگلنگ

ندیم خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں خطے کا کوئی ملک مزید تناؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا، "میرے خیال میں علاقائی سلامتی کے معاملات مستقبل میں مزید گھمبیر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ایران اور افغانستان میں حالیہ شورش کی ایک وجہ معاشی عدم استحکام بھی ہے۔ ایران پر عائد امریکی معاشی پابندیوں کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔ سرحدی تجارت پہلے ہی کئی مشکلات سے دوچار ہے۔ پاکستان کو ایران سے تجارتی تعلقات کے حوالے سے ایک واضح موقف کے ساتھ آگے آنا ہو گا۔‘‘

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کی جانب سے حکومت کو جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان میں بھی ایران سے سرحدی تجارت میں اضافے اور مقامی قبائل کو ٹیکسز میں ریلیف کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

آج گوادر میں حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان کی گرفتاری سے پاک ایران سرحدی علاقوں میں شورش میں بھی مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کی وکلاء تنظیموں نے اس گرفتاری کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔