1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاؤل کاگامے، روانڈا کا بے رحم مسیحا

فیلیپ زاندنر / امتیاز احمد7 اپریل 2014

بیس برس پہلے روانڈا میں نسل کُشی کا اختتام پاؤل کاگامے ہی کے عسکریت پسندوں نے کیا تھا۔ وہ آج بھی تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اس ملک کے صدر ہیں اور اس ملک کو آج بھی حالت جنگ میں سمجھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BdEt
تصویر: picture-alliance/dpa

روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں معیشت پھل پھول رہی ہے۔ افریقہ کے اس چھوٹے سے ملک میں، جہاں آج سے بیس برس پہلے ہوتو اور توتسی قبائل کے مابین ظالمانہ قتل عام کے مناظر دکھائی دیتے تھے، وہاں آج بڑی بڑی عمارتیں اپنے سر اٹھا رہی ہیں۔ دارالحکومت میں قانون کی عملداری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کہیں بھی کوڑا کرکٹ نہیں ہے۔ گلیوں میں نہ تو گند نظر آتا ہے اور نہ ہی پلاسٹک بیگ۔ پاؤل کاگامے کی سلطنت میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد ہے۔

روانڈا کی اس ترقی کے پیچھے بلاشبہ توتسی قبائل سے تعلق رکھنے والے صدر پاؤل کاگامے کا ہاتھ ہے اور اپنی حکومت کے آغاز میں انہیں مغربی دنیا میں بھی پسند کیا جاتا تھا۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا کہنا تھا کہ کاگامے اپنے ’قول کو سچ کر دکھانے‘ والے انسان ہیں۔ ایک مرتبہ سابق جرمن صدر ہورسٹ کوہلر کا ان کی تعریف کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ ان کے بہت بڑے منصوبے واضح کرتے ہیں کہ ملک صحیح سمت کی طرف گامزن ہے۔‘‘

Ruanda-Prozess in Frankfurt
تصویر: picture-alliance/dpa

پاؤل کاگامے بھی خود کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے، ’’اس کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ میں انتخابات نہ جیت سکوں۔‘‘ جنرل کاگامے اپنے اصلی مخالفین کو سن 1994ء کے قتل عام میں ہی ہلاک کر چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سن 2003ء اور 2010ء میں آسانی سے انتخابات جیت گئے تھے۔ ان انتخابات میں بہت سے امیدواروں کو ویسے ہی حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، جبکہ متعدد امیدوار پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے تھے لیکن آج تک حکومت کے ملوث ہونے کے بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔

روانڈا میں ہوتو اور توتسی قبائل کے مابین ہونے والے قتل عام کے تین ماہ کے دوران کم ازکم آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ بھی اس نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔ اس قتل عام کا خاتمہ کاگامے کے عسکریت پسندوں ہی نے کیا تھا۔ کاگامے کی سربراہی میں لڑنے والے عسکریت پسندوں نے جولائی 1994ء میں دارالحکومت کیگالی پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد ہوتو قبائل کی حمایت یافتہ حکومت بھاگ کر ہمسایہ ملک چلی گئی تھی اور اس وقت سے کاگامے کی گرفت اس ملک پر مضبوط ہے۔

بیرونی خطرے کا خوف

شروع میں کاگامے نائب صدر اور وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہے لیکن مبصرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس وقت کا صدر صرف ایک کٹھ پتلی تھا اور اصل طاقت پاؤل کاگامے کے ہی ہاتھ میں تھی۔ کاگامے کے بقول ان کا ملک پورے خطے میں مستحکم ہے لیکن ایک خوف انہیں ابھی بھی لاحق ہے۔ ہمسایہ میں کانگو میں مفرور ہوتو قبائل واپس آ سکتے ہیں اور روانڈا پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ اگر کانگو میں سیاسی حالات بدلتے ہیں تو یہ فقرہ حقیقت میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر کاگامے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ مغربی حمایت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ روانڈا میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔

مبصرین کے خیال میں کانگو میں مفرور توتسی قبائل کے علاقوں میں سرگرم عمل M23 عسکری تحریک کو بھی روانڈا مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صدر کاگامے اپنی سرحدوں کے باہر بھی عمل دخل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں روانڈا کے سابق انٹیلی جنس سربراہ کو پراسرار طور پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ قتل کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی لیکن پاؤل کاگامے کا سرعام خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ روانڈا کو دھوکہ دے گا اور پھر بچ بھی جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاؤل کاگامے کی مخالفت بڑھ رہی، مقامی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اور ان کی حکومت کو کسی بھی وقت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔