1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستامریکہ

سابق امریکی صدر ٹرمپ مواخذے سے دوسری مرتبہ بھی بچ گئے

14 فروری 2021

امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی پر اکسانے کے الزام میں مواخذے کی کارروائی میں بری کر دیا۔ فیصلے کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ ان کی تحریک ’ابھی صرف شروع ہوئی ہے‘۔

https://p.dw.com/p/3pL2q
کیپیٹل ہل پر حملہ
امریکی کانگریس کی عمارت پر چھ جنوری کو مسلح مظاہرین نے دھاوا بول دیا تھا۔تصویر: Douglas Christian/Zumapress/picture alliance

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کی دوسری کارروائی میں بھی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات سے بری ہو گئے ہیں۔ ہفتہ تیرہ فروری کی شام امریکی سینیٹ میں سات ریپبلکن سینیٹرز سمیت ستاون ارکان نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تینتالیس اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ اس طرح  امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کے لیے لازمی طور پر درکار دو تہائی اکثریت حاصل نا ہو سکی۔ یوں سابق صدر ٹرمپ کيپيٹل ہل پر حملے کی ترغيب دينے کے الزام میں اپنے مواخذے سے بچ گئے۔

ٹرمپ کا اثر و رسوخ

واشنگٹن میں ڈی ڈبلیو کی بیورو چیف اینس پوہل کے مطابق امریکی سینیٹ میں ووٹنگ کے نتائج سے ٹرمپ کے اثر و رسوخ کا واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''سابق امریکی صدر ٹرمپ ریپبلکن پارٹی پر گرفت رکھتے ہیں۔‘‘ اینس پوہل سمجھتی ہیں کہ ٹرمپ کی سیاست کا معاملہ ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔

امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذہ پر خصوصی سیشن
تصویر: U.S. Senate TV/REUTERS

واضح رہے کہ چھ جنوری کو ٹرمپ کے حاميوں نے کيپيٹل ہل پر دھاوا بول ديا تھا اور وہاں پرتشدد کارروائيوں ميں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بریت کے بعد ٹرمپ کیا کہتے ہیں؟

امریکی کانگریس صدر ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے بھی ایک بار ان کے مواخذے کی کوشش کر چکی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں، جن کے خلاف کانگریس نے چار سال میں دو بار مواخذے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ کا مواخذہ: سینیٹ میں حاضر ہونے سے انکار

امریکی سینیٹ کی جانب سے تمام الزامات سے بری کر دیے جانے کے فیصلے کے بعد ٹرمپ نے اپنے سیاسی مستقبل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''امریکا کو عظیم بنانے کے لیے ہماری تاریخی، حب الوطنی سے عبارت خوبصورت تحریک ابھی ابھی شروع ہوئی ہے۔‘‘

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
تصویر: Alex Edelman/AFP/Getty Images

انہوں نے اپنے حامیوں کو مخاظب کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے پاس آگے بہت کام ہے اور بہت جلد ہم امریکا کے روشن مستقبل کے وژن کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں گے۔‘‘

جو بائیڈن کا رد عمل

امریکی کانگریس کے فیصلے کے بعد صدر بائیڈن نے کہا، ''ہماری تاریخ کے اس افسوسناک باب نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جمہوریت کمزور ہو گئی ہے۔‘‘

ان کے بقول، ''اگرچہ حتمی رائے دہی میں سزا نہیں دی گئی لیکن الزامات متنازعہ نہیں ہیں۔‘‘ صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا، ''امریکا میں تشدد اور انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: امریکی فوجی قیادت کی طرف سے کیپیٹل ہِل پر ہنگامہ آرائی کی مذمت

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے گزشتہ نومبر کے صدارتی الیکشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور دھاندلی کے غلط الزامات لگائے۔ انہوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں اپنے حامیوں کو اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں چھ جنوری کو مسلح مظاہرین نے امریکی کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس دن امریکی نائب صدر مائیک پینس اور اسپیکر نینسی پیلوسی سمیت کئی اراکین کانگریس اور ان کا اسٹاف اپنی جانیں بچانے کے لیے عمارت کے مختلف کمروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ع آ / م م (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں