1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتایشیا

وادی غذر: کسی بند دروازے کے پیچھے جھیل ہو سکتی ہے؟

14 ستمبر 2021

بند دروازے کے پیچھے کچھ بھی ہو سکتا ہے، بچوں سے کھیلتی ماں، پیپل کا درخت، اشرفیوں سے بھرا صندوق، کوئی جانوروں کا باڑا۔ لیکن یہ کیسا عجیب خیال ہے کہ ایک بند دروازہ ہے اور آپ کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے ایک جھیل ہے۔

https://p.dw.com/p/40HoD
Waqar Ahmad
تصویر: privat

شیر قلعہ میں ہی ایک دوست یاور علی نے بتایا کہ یہاں ایک جھیل ہے لیکن کسی کی ذاتی جاگیر میں آتی ہے۔ جھیل اس قدر خوبصورت ہے کہ آپ کا اپنی آنکھوں پر یقین اٹھ جائے گا۔ میں نے سوچا کہ اگر اتنی ہی خوبصورت جھیل ہوتی تو سوشل میڈیا پر کہیں دیکھ ہی چکا ہوتا۔ فقط پانی کے ذخیرے کا نام تو جھیل نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے کسی کی جاگیر میں پانی کچھ ثانیوں کے لیے ٹھہرتا ہو۔

یاور علی چہرہ شناس تھے، اس لیے انہوں نے یقین دلانے کے لیے موبائل سے چند تصاویر دکھائیں۔ چند ایسے زاویوں سے یہ تصاویر لی گئیں تھیں کہ مکمل جھیل کی تصویر بنانا تخیل کے لیے مشکل کا م تھا لیکن وہ جو بھی زاویے تھے، یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ جھیل میں پانی کی مقدار جو ہو سو ہو لیکن کوئی جادو ضرور ہے۔

یاور علی کی گاڑی میں ہم شیر قلعہ کی مرکزی آبادی سے نکل کر دریا کے ساتھ ہو لیے۔ کچی سڑک پر بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کے دوران ان گنت مناظر آئے، جو ذہن میں آج بھی نقش ہیں۔ چند انسان متفق ہو کر ایک جگہ کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیں کہ یہ جگہ خوبصورت ہے تو آہستہ آہستہ مزید لوگ بھی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیتے ہیں ۔ اور ایسی جگہ کو 'لینڈ مارک‘ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ یہ 'گروہ کی نفسیات‘ کی ایک سادہ سی مثال ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف لینڈ مارک ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ لینڈ مارک کے ساتھ ساتھ ان گنت جگہیں ایسی ہوتی ہیں، جو لینڈ مارک سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں لیکن ان کو چند افراد کی مشترکہ سند حاصل کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہو سکا ہوتا۔ جھیل کی جانب جاتے ہوئے دریا کے گرد خوبصورت ریت پر کھیلتے بچے، پانی لے جاتی ہوئی خواتین، پانی کی ایک نالی سے پتھر نکالتا ایک چھوٹا سا بچہ، گاڑی کے سمت بدلنے سے درختوں پرآڑے چڑھتے پڑتے روشنی کے زاویے، گھنے بالوں کا سویٹر اوڑھے چرتی بکریاں اور ذرا دور بیٹھا سوچتا ہوا ایک بابا۔ یہ سب مناظر ان بیس پچیس منٹ میں دوران سفر دیکھنے میں آئے۔

آخر ایک گلی میں گاڑی رک گئی۔ میں حیران کہ اس جگہ پر تو دور دور تک جھیل کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے جبکہ میرے میزبان کہہ رہے ہیں کہ جھیل آ گئی ہے۔ گاڑی سے اتر کر ہم ایک دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یاور کہنے لگے، اوہو یہ دروازہ تو بند ہے اور تالا لگا ہوا ہے۔

میں نے یاور سے دوبارہ تصدیق چاہی کہ کیا اس بند دروازے کے پیچھے واقعی جھیل ہے؟ بند دروازوں کے پیچھے کچھ بھی ہو سکتا ہے،کوئی بچوں سے کھیلتی ماں، پیپل کا درخت، کوئی اشرفیوں سے بھرا صندوق، کوئی جانوروں کا باڑا لیکن یہ کیسا عجیب خیال ہے کہ ایک بند دروازہ ہے اور آپ کو کہا جا رہا ہے کہ اس بند دروازے کے پیچھے ایک جھیل ہے۔

یاور نے ایک بچے کو مقامی زبان میں غالبا چابی لانے کا کہا۔ کچھ وقت میں بچہ حاضر ہوا، بچے نے مقامی زبان میں جو بھی کہا لیکن یہ ضرور دکھائی دے رہی تھا کہ اس کے ہاتھ میں چابی نہیں تھی۔ یاور سے مکالمے کے بعد بچہ پھر غائب ہوا اور میں مسسلسل اس خیال میں غلطاں کہ اس بند دروازے کے پیچھے ایک جھیل ہے۔ کیا جھیل ایسی ہی موجود رہے گی اور ہمیں جھیل کے دروازے کی چابی نہیں ملے گی یا چابی مل جائے گی تالا کھل جائے گا لیکن جب ہم دروازے سے اندر داخل ہوں گے تو جھیل غائب ہو جائے گی؟ شیر قلعہ کے نواح میں آج کچھ نہ کچھ دیومالائی ہونے والا تھا۔

بچہ پھر دوڑتا ہوا نمودار ہوا اور اس دفعہ اس کے ہاتھ میں چابی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب دروازہ تو کھل جائے گا لیکن جھیل غائب ہو جائے گی۔ کوانٹم فزکس کے شروڈنگرز کے بلی والے تجربے کی مانند کسی ایک واقعہ نے الٹ ضرور ہونا تھا۔ دروازہ کھلتا ہے اور ہم اندر داخل ہوتے ہیں۔ کسی طرح کے جھیل کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ایک دور جاتا سنگریزوں بھرا راستہ ہے اور راستے کے ساتھ آگے ایک خوبصورت گھر دکھائی دے رہا ہے۔ ہم گھر کے پاس پہنچ کر دائیں جانب جھاڑیوں کی جانب ہو لیے۔ جھاڑیوں اور درختوں سے ہوتے ہوئے ہم نے بمشکل سو میٹر کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ اچانک وہ نمودار ہوئی۔

یاور اور دوسرے دوست جو یہاں لائے تھے میری طرف دیکھ رہے تھے کہ ابھی یہ کچھ کہے گا! یہ کہے گا کہ واہ کیا خوبصورت جھیل ہے، یہ کیسی کمال جگہ پر آپ لوگ مجھے لائے ہیں، میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں لیکن میں چپ رہا۔ یاور نے تنگ آ کر پوچھ لیا، جھیل کیسی ہے؟ میں نے یاور کو کہا کہ مجھے آپ آدھا گھنٹہ دیں، اس کے بعد سفر ہے شرط کے لیے، جو ریکارڈ کرواوں گا وہ سن لیجئے گا۔

میں جھیل کے کنارے کنارے دوسری طرف گیا۔ پھر کافی دیر مختلف جگہوں اور مختلف زاویوں سے جھیل کو دیکھتا رہا۔پھر کیمرہ آن کیا اور سفر ہے شرط کے لیے اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے، ''ناظرین میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ زندگی میں ہمیشہ لفظوں کی حرمت کا خیال رکھتا آیا ہوں کیونکہ تاثرات کی پیچیدگیوں کے مقابلے میں الفاظ ہمیشہ کم ہوتے ہیں تو یقیناﹰ بارہا لفظوں کی حرمت مجروح کی ہو گی۔ لیکن میں آپ کو یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ سفر ہے شرط کی کم و بیش ایک سو اقساط میں کبھی میں نے کسی جھیل کے بارے میں یہ الفاظ استعمال نہیں کیے کہ ناظرین اس جھیل کو پاکستان کی خوبصورت ترین جھیل کہا جا سکتا ہے۔ خوبصورت ترین جھیل اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جھیل فقط پانی کا ذخیرہ نہیں ہوتی بلکہ جھیل تو وہ ہوتی ہے، جو ان گنت فیچرز رکھتی ہو، جو بولتی ہو، آپ جھیل کے کنارے ایک قدم اٹھائیں اور آپ کو یہ لگے کہ شاید یہ زاویہ سب سے دلکش ہے اور دوسرا قدم اٹھاتے ہوئے پہلے قدم کے دعوے کو رد کر دیں۔ یہ کیسی جھیل ہے، جس میں کنارے بیٹھے میں مچھیلوں کا باہم معاشرتی میل جول باآسانی دیکھ سکتا ہوں۔ یہ جھیل، جس کے مقامی زبان میں نام کے معنی ڈوبا ہوا پتھر ہے، پانی کا کوئی عظیم ذخیرہ نہیں ہے۔ ہماری تمام دوسری جھیلوں کی یہ سب سے چھوٹی بہن ہے لیکن سب سے خوبصورت ہے۔ اس کا ایک ایک درخت ایسے ہے کہ نا ہو تو جھیل مکمل نہیں ہو سکتی اور ایک درخت کا اضافہ ہو جائے تو جھیل کا حسن مانند پڑ جائے۔ جھیل کے پاس سنانے کے لیے انگنت کہانیاں ہیں اور یہ سب کہانیاں اصل میں ۔‘‘

میں یہ سب کیمرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ پس کیمرہ کھڑے یاور اور دوسرے دوستوں کی نگاہ مجھ سے ہٹ کر میرے پیچھے بائیں جانب مبذول ہو گئی۔ ان کی نگاہیں مرعوب تھیں، جیسے کوئی بڑا بندہ آ گیا ہے یا جیسے ہم کوئی چوری کر رہے تھے اور پکڑے گئے ہیں۔ میں گڑ بڑا گیا اور کیمرے کو چھوڑ کر ان کی نگاہوں کا تعاقب کیا۔ سفید چہرے اور نیلی آنکھوں والی ایک بارعب شخصیت کہ جس نے انتہائی خوبصورت لباس زیب تن کر رکھا تھا اور سر پر ایک پگ تھی، نپے تلے قدموں سے چلا آ ہا تھا۔ پس منظر میں یاور کی آواز آرہی تھی کہ یہ راجہ فخر عالم ہیں اور جھیل ان کی نجی ملکیت ہے۔

میں ڈر گیا تھا۔ مقامی لوگ آپ کو خوش کرنے کے لیے کئی دفعہ ضروری پروٹوکول کا خیال نہیں رکھتے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ راجہ فخرعالم سے اس جھیل کی ریکارڈنگ کی اجازت نہیں لی گئی تھی اور اب ضرور کچھ برا ہونے والا تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا۔ میرا ہاتھ راجہ فخر عالم کے ہاتھ میں تھا اور میرے حواس کو ان کی نیلی آنکھوں نے گرفت میں لے لیا تھا، جھیل غائب ہو گئی تھی۔