1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نورین کی رخصتی کرنی تھی مگر اُسے رخصت کر دیا گیا

26 مئی 2023

غیرت کی بندوق سے گولی نکلی اور ایک پچیس سالہ معصوم جسم کو چیرتی ہوئی اندر کہیں گم ہو گئی۔ انسانی جسم کا کیا ہے وہ آنے جانے والی چیز ہے۔ بس شکر بھیجیں کہ ’غیرت بحال‘ ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/4RqOY
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

سترہ مئی کو ضلع جامشورو کے شہر بھان سیدآباد کے گاؤں گلشیر مھر میں نوجوان لڑکی نورین مھر کی لاش ملی۔ اس لاش کو بھی خود کشی کے کفن میں لپیٹنے کی کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جو تصاویر منظرے عام پہ آئی ہیں ان میں نورین کے سر میں پستول کی گولی لگی ہوئی ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولیس کا کہنا تھا کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل کا کیس ہے۔ اس قتل کا مقدمہ ایک نوجوان لڑکے نے نورین کے خاندان والوں پہ ہی کر دیا ہے اور یہ نوجوان اپنے آپ کو نورین کا شوہر بتاتا ہے۔

اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ نورین نے 2021 میں اس نوجوان سے خفیہ طور پر کورٹ میں اس لئے شادی کر لی کہ کہیں گھر والے دوسری جگہ شادی نہ کروا دیں۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ نورین کا رشتہ آگیا، جو اسے پسند نہیں تھا۔ اصرار بڑھا تو نورین نے بتایا کہ میں شادی کر چکی ہوں۔

شادی کے بعد بھی نورین اپنے والدین کے گھر میں رہ رہی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ اس کے گھر والے اس کے ہاتھ پیلے کر کے رخصتی کر دیں۔ لیکن اس ظالم سماج نے ہاتھ لال کر کے اسے دنیا سے ہی رخصت کر دینا زیادہ بہتر سمجھا۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اپنی اولاد کی رضامندی کو قبول کرنا زیادہ آسان ہے یا اسے قتل کر دینا اور اس سوال کا جواب آج کے اس جدید دور میں بھی کیوں نہیں مل پا رہا؟

یہ قتل کی وہی قدیم رسم ہے جس کے جواز کے لیے خاندانی عزت کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ مطلب پورے خاندان کی عزت کا دارومدار ایک عورت کے اختیار سے اور وہ بھی شادی کے اختیار سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بے عزتی کی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی کا وجود ایک ایسے شخص کو سونپ دیں، جو شخص خود آپ کی بیٹی کو نہیں پسند۔

اس طرح کے جرائم کے رونما ہونے کی سب سے واضح وجہ پدرسری نظام ہے جہاں خواتین کو خاندان کے مردوں کے مطابق زندگی گزارنے اور برتاؤ کرنے کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو آج بھی صدیوں پہلے قائم کردہ نظاموں پر سختی سے چلانے کی کوشش کی جاری ہے۔

 ان لوگوں کو اب بھی اپنے بچوں کی طرف سے اپنی زندگی کے کیے گئے انتخاب کو قبول کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔چونکہ پدرسری معاشرے کے تمام اصولوں اور روایتوں کو برقرار بھی رکھنا ہے اور خاندان کو بے عزتی سے بھی بچانا لازمی ہے، لہذا عورتوں پر تشدد کرنا پڑے تو کر دینا چاہیے۔

نورین نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے گریجویشن مکمل کی تھی اور حال ہی میں آئے بی اے کا امتحان پاس کر کے ٹیچر بننے والی تھی۔ اس سب میں میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک تعلیم یافتہ اور خودمختار لڑکی اپنی مرضی سے اپنا ہمسفر چننے کا بھی اختیار نہیں رکھتی؟ 

 پچیس سالہ نورین کو صرف اس لئے مار دیا گیا کہ اس نے اپنی مرضی سے اپنے ہمسفر کا انتخاب کیا تھا اور خاندان کی رضامندی کے خلاف شادی کر لی تھی۔ 

کتنی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے ہاں اپنی مرضی کی زندگی جینا کو غلط سمجھا جاتا ہے اور گھٹ گھٹ کر جینے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیسے گھٹن زدہ ماحول میں ہماری نوجوان لڑکیاں پل رہی ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26