1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'استحکام پاکستان پارٹی' کی بنیاد رکھ دی گئی

8 جون 2023

جہانگیر خان ترین نے اپنی نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں اور شر پسندوں کو انجام تک نہ پہنچایا گیا تو پھر سیاسی مخالفین پر حملے بھی معمول کی بات بن جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/4SLe3
Pakistan Politiker Jahangir Khan Tareen
تصویر: PPI/Zuma Wire/picture alliance

پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین نے تعمیر، ترقی اور خوشحالی کے نعروں کے ساتھ اپنی نئی سیاسی جماعت  ''استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے بیشتر رہنماوں نے اس جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

اس جماعت کی تعارفی تقریب کے لیے پاکستانی پرچم کے رنگوں والا ایک دعوت نامہ جاری کیا گیا تھا، جس پر یہ عبارت تحریر تھی، ''جہانگیر خان ترین ایک مستحکم و خوشحال پاکستان کی تعمیر کے سفر میں ہم آپ کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘

اس پارٹی کی افتتاحی تقریب میں سابق پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس، عمران اسمعیل، علی زیدی، عامر کیانی، فردوس عاشق اعوان، محمود مولوی، فیاض الحسن چوہان، مراد راس، نعمان لنگڑیال، رفاقت علی گیلانی، جلیل شرقپوری اور جے پرکاش سمیت پچاس سے زائد سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور چھوٹے بڑے علاقائی رہنما بھی موجود تھے۔

اگرچہ اس سیاسی جماعت کی سرگرمیاں سیاسی انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں لیکن پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اس جماعت کو پاکستان کے ان طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے جو ملکی تاریخ میں جمہوری حکومتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اس طرح کی جماعتیں بناتے رہے ہیں۔

نئی سیاسی جماعت کے مقاصد کیا ہیں؟

اگرچہ استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے بنائی جانے والی سیاسی جماعت کے لیے بہت پرکشش سلوگن دیے جا رہے ہیں لیکن تجزیہ کار جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی تحلیل کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پورا کرنے اور اس کو چھوڑ کر آنے والوں کو متبادل پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے یہ جماعت بنائی گئی ہے۔

’مقبولیت کے زعم میں عمران خان زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں‘

موجودہ سیاسی بحران کے محرکات، کردار اور اثرات

سینئر صحافی بینظیر شاہ کے مطابق اس جماعت میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جو مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کی مخالفت میں بہت آگے چلی گئی تھیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والوں کی کھپت کے لیے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں بہت زیادہ گنجائش نہیں ہے اس لیے ان کے لیے یہ جماعت بنائی جا رہی ہے۔

دفاعی و سیاسی تجزیہ کار فارووق حمید کے مطابق بزنس مین اور سیاست دان جہانگیر ترین قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کرتے رہے ہیں۔ اب یہ جماعت بنا کر وہ اپنی ان صلاحیتوں کی ہیٹرک کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ جماعت زیادہ دیر تک کامیابی سے نہیں چل پائے گی، '' اگر یہ جماعت کامیاب بھی ہو گئی تو جہانگیر ترین کے اس عمل کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائے گا۔‘‘

یہ جماعت کس حد تک کامیاب رہے گی؟

جاوید فاروقی کے بقول اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر آنے والے اپنے ساتھ پی ٹی آئی کا کتنا ووٹ بنک لاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس جماعت میں کئی با اثر الیکٹیبلز شامل ہو رہے ہیں اور ان کا اپنا ووٹ بنک بھی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوگا۔

سینئر صحافی بینظر شاہ کے بقول ابھی اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم ان کے خیال میں کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی اس بات کا اندازہ ہو سکے گا کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک کس طرف جاتا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں دکھائی یوں دے رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کا زیادہ تر فوکس جنوبی پنجاب کی طرف رہے گا جبکہ مسلم لیگ نون وسطی پنجاب میں انتخابی کامیابی اسں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مشکل مرحلہ

پاکستان پیپلز پارٹی، اسٹیبلشمنٹ کا نیا انتخاب؟

فارووق حمید کے مطابق یہ لوگ عوام کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ شوگر اسکینڈل جہانگیر خان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ ابھی جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ سے نااہلیت کا بھی سامنا ہے۔ ان کی کامیابی آسان نہیں ہوگی۔

استحکام پاکستان پارٹی کے سیاست پر کیا اثرات ہوں گے  

بینظیر شاہ کے مطابق، ' یہ ایک بہت دلچسپ صورتحال ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں جن لوگوں نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخاب سے پہلے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی انجنیئرنگ کی تھی وہ اب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سیاسی انجنیئرنگ کر رہے ہیں۔ اس میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف اور پیپلز پارٹی استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں ایسی صورت میں یہ ساری پی ٹی آئی مخالف جماعتیں آپس میں ہی الیکشن لڑ رہی ہوں گی اور ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی کا ووٹر ان جماعتوں کو ووٹ ڈالے گا یا پھر گھر بیٹھ کر ٹرن آوٹ گرا دے گا۔ کچھ عرصہ پہلے نون لیگ نے پی ٹی آئی سے آنے والوں کو اپنے حلقوں میں الیکشن لڑوایا تھا تو نون لیگ کے ووٹر نے انہیں ووٹ نہیں دیے تھے'۔

جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ  یہ جماعت آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ایک اہم پریشر گروپ کے طور پر کام کرے گی اور اس سے بیلسنگ فیکٹر کا کام لیا جائے گا۔

فاروق حمید کے خیال میں اس جماعت کو اگلی حکومت بنانے کے لیے پریشر گروپ کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور جمہوری حکومت ایم کیو ایم کی طرح اب ان کی بلیک میلنگ کا شکار ہوگی۔

نئی پارٹی کی مشکلات کیا ہوں گی؟

جاوید فاروقی کے مطابق اس جماعت کی مشکل یہ ہوگی کہ اس میں شامل لوگ کوئی خاص نظریاتی وابستگی نہیں رکھتے ہیں،

 وہ جس طرح اکٹھے کیے گئے ہیں اسی طرح بکھیرے بھی جا سکتے ہیں۔ ایک نئی پارٹی کے طور پر ووٹروں کا دل جیتنے کے لیے اسے بہت محنت کرنا پڑے گی۔

فارووق حمید کے بقول یہ وفاداریاں بدلنے والے مفاد پرست لوگوں کا ایک مصنوعی اتحاد ہے، جس کا عوام میں پہلے ہی امیج خراب ہے، ان کے لیے عوام کو متاثر کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اگر فیصلہ عوام نے کیا اور الیکشن منصفانہ ہوئے تو پھر ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ نہیں ہوں گے

پارٹی کی افتتاحی تقریب

لاہور کے سب سے بڑے ہوٹل میں جمعرات کی شام منعقدہ اس پارٹی کی پر ہجوم تعارفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  جہانگیر ترین نے کہا کہ آج ہم نئی سیاسی جماعت 'استحکام پاکستان‘ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

'عثمان بزدار عمران خان کے خلاف ہی وعدہ معاف گواہ بھی بن سکتے ہیں'

کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا نیا ’سیاسی فارمولا‘ کامیاب ہو سکے گا؟

انہوں نے کہا، "ملک اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، ہمیں نئی جماعت بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آٗئی کیونکہ سیاست میں آنے سے لے کر اب تک میں میرا مقصد ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا رہا ہے۔"

ترین نے کہا، "نو مئی کے واقعات نے پاکستانی سیاست کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ میں اپنے دل کی گہرائی سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ دل کی گہرائی سے۔۔۔ کہ اگر ہم نے نو مئی کے منصوبہ سازوں اور شر پسندوں کو انجام تک نہ پہنچایا تو پھر سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملہ بھی قابل قبول سمجھا جائے گا اور ہم یہ کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے۔"

جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں نے اس موقع پر میڈیا کے سوالات لینے سے گریز کیا۔

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان