1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتپاکستان

موٹر سائیکل پر گلگت بلتستان کی سیاحت، فوائد و خدشات

19 جون 2022

نصیب والا تھا کہ مجھے دسیوں دفعہ گلگت بلتستان موٹر سائیکل پر سفر کرنے کا اعزاز اور موقع حاصل رہا۔ پہلی مرتبہ 2010 ء میں گلگت بلتستان موٹر سائیکل پر جانے کا اتفاق ہوا۔

https://p.dw.com/p/4CuLo
Waqar Ahmad
تصویر: privat

اس کے بعد ٹی وی چینل کے لیے ایک پروگرام بنایا، جس میں موٹر سائیکل پر خنجراب تک سفر کیا۔ یہ پروگرام 2011ء میں ریکارڈ ہوا اور اسی سال اس کی تیرہ اقساط نشر کی گئیں۔ 'سفر ہے شرط‘ نام کے اس پروگرام کا یہ پہلا سیزن تھا، جو موٹر سائیکل کی وجہ سے ہی مقبول ہوا۔ اس کے بعد اس پروگرام کے سات سیزن آئے لیکن وہ مقبولیت نہ ملی، جو پہلے سیزن میں ملی تھی حالانکہ بعد میں آنے والے دو سیزن مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بھی ریکارڈ و نشر کیے گئے۔ پہلے سیزن کی مقبولیت یقیناﹰ موٹر سائیکل کی وجہ سے تھی۔

موٹر سائیکل پر گلگت بلتستان، چترال یا بلوچستان کا سفر کرنا سیاحوں کا خواب ہوتا ہے لیکن شاید اس خواب کی تکمیل کے راستے میں کئی واہمے اور اندیشے ہوتے ہیں۔ انہی اندیشوں اور واہموں پر بات کرتے ہیں۔

فوائد کیا ہیں؟

سب سے پہلے ان فوائد کی بات کرتے ہیں، جو ایک موٹر سائیکل سوار کو دوسرے سیاحوں کی نسبت کہیں زیادہ حاصل ہوتے ہیں ۔

  • موٹر سائیکل پر مکمل منظر ہمہ وقت رہتا ہے۔ کار یا بس میں سفر کرتے ہوئے آدھا منظر کار کے فرش، چھت اور شیشوں کے گرد سپورٹ وغیرہ کی وجہ سے کٹ جاتا ہے۔ موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہوئے مکمل پینوراما آپ کے سامنے رہتا ہے۔
  • جب آپ موٹر سائیکل پر سفر کر رہے ہوتے ہیں تو بدلتا درجہ حرارت آپ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آپ مکمل طور پر ماحول کے اندر ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں درجہ حرارت میں بے حد تنوع ہے۔ آپ جیسے ہی کسی موڑ پر نالے کے قریب سے  گزرتے ہیں یا کسی سر سبز آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو درجہ حرارت گر جاتا ہے اور جیسے ہی آبادی یا نالے کو عبور کرتے ہیں تو درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس کو موٹر سائیکل سوار ہی محسوس کرتا ہے جبکہ اگر آپ نے کار یا بس میں اے سی لگایا ہوا ہے تو درجہ حرارت کے اس منفرد فطری کھیل سے ناواقف رہتے ہیں۔ فطرت میں رہ کر سفر کرنے کا کچھ متبادل نہیں ہے۔
  • قراقرم ہائی وے پر سفر کرنے کے دوران آپ کئی خطوں سے گزرتے ہیں۔ ہر خطے کی بوٹیوں اور پھولوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، جو فضا میں پھیلی ہوتی ہے۔ آپ موٹر سائیکل سوار ہیں تو آپ کو ہر خطے کی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ میں جب شتیال سے آگے گلگت بلتستان میں داخل ہوتا ہوں تو آنکھیں بند بھی کر لوں تو بتا سکتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں داخل ہو گیا ہوں۔ اس کی وجہ بنجر پہاڑوں میں کثرت سے پائی جانے والی ایک خوشبودار بوٹی ہے۔
  • جب آپ کار یا بس میں ہوتے ہیں تو دوسرے لوگوں کی وجہ سے ایک خاص جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ایک خوبصورت آبشار کے پاس رکنا چاہیں لیکن آپ کے کسی ساتھی کو اعتراض ہو کہ منزل مقصود پر پہنچنا ضروری ہے یا یہ وقت کا ضیاع ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب آپ موٹر سائیکل پر ہوتے ہیں تو آپ دو پہیوں پر سوار ایک آزاد روح ہوتے ہیں۔ جہاں دل کیا اترے اور موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر ترچھا کھڑا کیا اور آبشار کی ٹھنڈی پھوار کی چھاوں میں بیٹھ گئے۔ بھیگ چلے تو موٹر سائیکل پر سوار ہوئے اور سامنے آنے والی ہوا کی گنگناہٹ میں اپنا گنگنانا شامل کر لیا۔
  • کس ٹور پر کتنا پٹرول خرچ ہو گا یہ ٹور کا بجٹ بناتے وقت زیر غور رہتا ہے۔ حالیہ قیمتوں کی بڑھوتری کی وجہ سے یہ معاملہ کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اب ایک عمومی مائلیج دینے والی کار کے لیے بھی گلگت بلتستان کا ٹور پٹرول کے حوالے سے بیس پچیس ہزار کا بنتا ہے۔ جبکہ موٹر سائکل سوار پنڈی سے ٹینکی فل کروائے گا اور داسو پہنچ جائے گا۔ داسو میں ٹینکی فل کروائے اور ابھی پٹرو ل ٹینکی میں کافی ہو گا کہ گلگت پہنچ جائے گا۔ بہر حال چھ سے آٹھ ہزار کے پٹرول میں گلگت بلتستان آنا جانا ہو جائے گا۔
  • گلگت بلتستان میں بہت سے راستے ایسے ہیں، جہاں سفر بذریعہ جیپ ہی ہو سکتا ہے۔ آپ کو کار کے علاوہ یہ اضافی خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے کہ جیپ کرایے پر لینی پڑتی ہے۔ جبکہ جہاں جیپ جاتی ہے وہاں موٹر سائیکل بھی پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے یہ اضافی خرچہ بچ جاتا ہے۔

اندیشے کیا ہیں؟

  • موٹر سائیکل جو پاکستان میں عام استعمال ہوتی ہے تو ایسی موٹر سائیکل کی سیٹ کو ہم ''پھٹہ سیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ آپ کو شدید تھکا دیتی ہیں۔ جبکہ ایسی موٹرسائیکلز، جو آپ کو نہیں تھکاتیں ان کی قیمتیں پاکستان میں ڈھائی لاکھ کے قریب پہنچ گئیں ہیں۔ اگر آپ کے پاس عام موٹر سائیکل ہے تو کمر ٹکانے کا بندوبست ضرور کر لیں ۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر آپ کا سامان ہو اور سامان کے آگے پشت کو سپورٹ دینے کے لیے کوئی گدی فکس ہو۔
  •   ہیوی بائیکس کو لے کر جانے کے اپنے مسائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ ہیوی ہوتی ہیں۔ بصورت لینڈ سلائیڈ وغیرہ ان کو اٹھا کر دوسری سائیڈ پر لے جانا مشکل کام ہے۔
  • پنکچر لگانے کی آپ کو مہارت ہے تو خوب نہیں ہے تو سیکھ لیں۔ لیکن اگر آپ میری جیسی طبیعت کے مالک ہیں، جو یہ سوچتا ہے کہ ''خیریت رہے گی بائیک پنکچر نہیں ہو گی‘‘ یعنی  سست اور کاہل طبیعت کے انسان ہیں تو کم از کم ایک پمپ ضرور رکھ لیں۔ اگر نارمل پنکچر ہوا تو وقفوں وقفوں سے ہوا بھر کر آپ کسی پنکچر والے تک پہنچ سکتے ہیں۔
  • لگاتار موٹر سائیکل چلانے کی وجہ سے کئی دفعہ آپ توجہ کھو بیٹھتے ہیں۔ آپ چاہے ہزاروں کلومیٹر سفر کریں توجہ کی حالت وہی ہونا چاہیے، جو سفر شروع کرتے وقت تھی۔ اگر توجہ منتشر ہو رہی ہو تو آرام کر لیں۔
  •  موٹر سائیکل کے سفر میں ابتدا میں تو کلومیٹرز آسانی سے کٹتے ہیں آپ ایک دن میں تین سو سے چار سو کلومیٹر کا سفر کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن پانچویں چھٹے روز یا واپسی کے سفر پر بیس پچیس کلومیٹر کے وقفوں سے سفر ہو رہا ہوتا ہے یعنی ہر بیس پچیس کلومیٹر پر کچھ وقفہ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات بیس پچیس کلومیٹر بھی کٹنے میں نہیں آتے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب آپ تیز رفتاری سے کام لیتے ہیں جو کہ عموما کسی برے نتیجے پر منتج ہوتی ہے۔
  • اگر خواتین یہ مضمون پڑھ رہی ہیں اور یہ سوچ رہی ہیں کہ ان کے تو مزے ہیں ہم کیا کریں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ موٹر سائیکل چلانا سکیھیں۔ گلگت بلتستان میں اب پاکستانی لڑکیاں موٹر سائیکل پر ٹور کرتی نظر آتی ہیں، جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے۔

نتیجہ یہ ہے!

 کچھ واہمے سے ہوتے ہیں وگرنہ جیسے ہی آپ نے حوصلہ پکڑا تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ موٹر سائیکل پر ٹور دیگر سواریوں کی نسبت زیادہ محفوظ ہے۔ پاکستان میں بہت سارے موٹر سائیکل کلب ہیں، کسی ایک میں شمولیت اختیار کر لیں۔ بہتر تجویز تو یہی ہے کہ اپنا ایک گروہ بنائیں، اس میں ایک رہنما چنیں اور زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے نکل پڑیں۔