1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

موسمیاتی تبدیلیوں کے پاک بھارت آبی تنازعے پر اثرات

23 فروری 2023

پاکستان اور بھارت کے مابین آبی تقسیم کے 1960ء میں طے پانے والےمعاہدے پر اختلافات سےکشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق دونوں پڑوسی ممالک مفاہمت کی راہ اپنا کر ماحولیاتی اور اقتصادی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Nssf
Indien Kaschmir Fluss Indus
تصویر: mitrarudra/agefotostock/IMAGO

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں اضافے کے ساتھ ہی پانی کی مقدار میں کمی پاکستان اور بھارت  دونوں ہی کے لیے باعث تشویش ہے۔ اس سلسلے میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے چھ دہائیاں پرانے سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ بات چیت کی  تجویز پیش کی ہے تاہم پاکستان ابھی تک اس تجویز کی مخالفت کر رہا ہے۔

Pakistan | Monsun Überschwemmungen
پاکستان میں موسم گرما میں آنے والے سیلابوں نے تینتیس ملین افراد کو متاثر اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایاتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

لیکن  ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دوبارہ مذاکرات یا کم از کم معاہدے میں تبدیلی پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے مساوی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ دونوں ممالک میں  ڈیموں کی تعمیر پر زور، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے  پانی کی طلب میں اضافہ، کبھی خشک سالی اور  کبھی سیلابوں نے پانی کے حقوق اور اس تک رسائی کو ایک بڑی تشویش کا باعث بنا دیا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ ایک نظر میں

عالمی بینک  کی ثالثی میں 1960ء میں کیا گیا  سندھ طاس آبی معاہدہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی شناخت اور پھر ان کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کی تقسیم کو منظم کرتا ہے۔ یہ معاہدہ تعطل، جھڑپوں حتیٰ کہ جنگوں کا مقابلہ بھی کر چکا ہے لیکن کشمیر کے متنازعہ خطے کی وجہ سے 2019 ء سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین سفارتی تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں اور دونوں حریف ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم اور رسد پر جھگڑا اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

اس وقت دونوں ملکوں کے پاس سندھ طاس میں ہائیڈرو پاور کے درجنوں آپریشنل یا زیر تعمیر منصوبے موجود ہیں۔ تاہم  پاکستان دریائے جہلم پر بھارت کے 330 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے کشن گنگا ڈیم  اور دریائے چناب پر 850 میگاواٹ والے رتلے ڈیم کے منصوبوں کی مخالفت کرتا ہے۔

عالمی ثالثی یا دوطرفہ مذاکرات؟

پاکستان ان دونوں منصوبوں کے حوالے سے اپنے تحفظات پر دی ہیگ میں بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کر چکا ہے جبکہ بھارت نے اپنے اس پڑوسی ملک سے کہا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کے لیے دو طرفہ بات چیت کرے تاکہ اس معاملے میں کسی  تیسرے فریق کی  مداخلت کو روکا جا سکے۔ اس معاہدے کی موجودہ شرائط کے تحت دونوں ممالک تنازعات کو عالمی بینک کے مقرر کردہ غیر جانبدار ماہر کے ذریعے یا ثالثی عدالت میں حل کر سکتے ہیں۔

Indien | Wasserversorgung in Bangalore
ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک بھارت کے کئی شہر پانی کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیںتصویر: Aijaz Rahi/AP Photo/picture alliance

پاکستان نے ثالثی عدالت کا راستہ اختیار کیا ہے کیونکہ اسے تشویش ہے کہ بھارت کے  ہائیڈرو پاور ڈیموں  کے کچھ منصوبے پانی کے اس بہاؤ کو کم کر دیں گے جو پاکستان میں زراعت کے لیے درکار پانی کی کم از کم 80 فیصد ضروریات پورا کرتا ہے۔ تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی شرائط کے مطابق ہی اپنے  ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس ڈیزائن اور تعمیر کر رہا ہے۔

سرحد کے دونوں جانب کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے اس معاہدے میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے کیونکہ بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہونے کے باعث پاکستان کو یقین ہے کہ اس معاملے میں بین الاقوامی اداروں کی شمولیت  اسلام آباد کی پوزیشن مضبوط کرے گی۔

اس کے باوجود کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پہلی بارموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے پیش نظر اس دوطرفہ معاہدے پر نظرثانی کی جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر کنگز کالج لندن میں جغرافیے کے پروفیسر دانش مصطفٰی نے کہا کہ ایسا کرنے سے بالآخر پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ بھارت سے توقع کی جائے گی کہ وہ ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ڈیزائننگ اور پانی کے بارے میں فیصلے کرتے وقت موسمیاتی حدت میں اضافے کے اثرات کو مدنظر رکھے گا۔

موسمیاتی تبدیلیاں اوراعتماد کا فقدان

سائنسی جریدے نیچر میں پاکستانی اور اطالوی محققین کی 2019 ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں دونوں ممالک کے مابین 'اعتماد کو تیزی سے ختم کر رہی ہیں‘ اور یہ کہ اس معاہدے میں 'ماحولیاتی تبدیلیوں اور سندھ طاس کی پائیداری سے متعلق مسائل پر رہنما خطوط کا فقدان‘ ہے۔

انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر

تاہم اسلام آباد میں مقیم ماحولیات اور ترقی سے متعلقہ امور کے تجزیہ کار علی توقیر شیخ نے کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر گہری تشویش اور ان کے باعث بڑھتا ہوا دباؤ اس وقت''پانی کی تقسیم پر باہمی تعاون اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے دستیاب امکانات میں سے بہترین ذریعہ ہیں۔‘‘

دو طرفہ تعاون ضروری

انہوں نے کہا، ’موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار بننے کے بجائے‘ دونوں ممالک کو مل کر ایسی پالیسیاں بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے، جو دونوں ہی کے لیے کارآمد ہوں۔ اس تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے لے کر بارشوں میں مزید شدت تک آب و ہوا سے متعلق خدشات سے نجات پانے  کے لیے سندھ طاس معاہدے کو اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی یونیورسٹی کے شعبہ ارضیاتی علوم کے پروفیسر شکیل رومشو کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں تبدیلی اس لیے بھی ضروری ہے کہ  سندھ طاس پر انحصار کرنے والی برادریاں  پہلے ہی بڑھتی ہوئی گرمی، طویل خشک سالی اور غیر معمولی بارشوں سے نمٹ رہی ہیں۔ ان کے بقول جنوبی ایشیا میں تیزی سے عام ہونے والی  موسمیاتی تبدیلیاں کی وجہ سے دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کے امکانات 'معیشت کے مختلف شعبوں پر نمایاں اثرات‘ مرتب کریں گے۔  انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''دریا کے بہاؤ میں مزید کمی پورے سندھ طاس میں خوراک، توانائی اور واٹر سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دے گی۔‘‘

پاکستان اور بھارت دونوں کی خارجہ امور اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی ملکی وزارتوں  نے سندھ طاس معاہدے یا دونوں ممالک کے درمیان جاری پانی کے تنازعات پر تبصرہ کرنے کی روئٹرز کی درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا۔

ش ر ⁄  م م (روئٹرز)