1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی حکومت اسلام یا مسیحیت اپنانے پر ریزرویشن کے خلاف کیوں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
10 نومبر 2022

مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامے میں دلیل دی ہے کہ اسلام اور عیسائیت میں اونچ نیچ نہیں ہے لہذا دلت ہندو مذہب تبدیل کرنے کے بعد ریزرویشن کا آئینی حق کھو دیتا ہے۔ متعدد تنظیموں نے اس دلیل کو بے بنیاد بتایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4JJL7
Indien Unabhängigkeitstag Premierminister Narendra Modi
تصویر: Reuters/A. Abidi

بھارت میں ریزرویشن ایک بہت بڑا سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسئلہ ہے۔ بھارتی آئین کی رو سے مختلف مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن کی الگ الگ فیصد طے ہے۔

تاہم ان دنوں سپریم کورٹ میں ایک کیس زیر غور ہے کہ کیا اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی دلت ہندو، جسے شیڈولڈ کاسٹ بھی کہا جاتا ہے، اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام یا مسیحیت قبول کرلیتا ہے تب بھی وہ ریزرویشن کا حقدار رہے گا۔

ہندومت اور ذات پات

دراصل ایک غیر سرکاری تنظیم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے کہا ہے کہ 1950 کا (شیڈولڈ کاسٹ) آئینی حکم غیرآئینی ہے، کیونکہ اس میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتے ہوئے صر ف ہندو، بودھوں اور سکھوں کو شیڈولڈ کاسٹ قرار دیا گیا ہے جب کہ بھارتی آئین میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی مودی حکومت اس کے خلاف ہے۔ اس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے کہا ہے کہ چونکہ ہندو دھرم کے برخلاف اسلام اور مسیحیت میں کسی طرح کی چھوا چھوت نہیں ہے لہذا اپنا دھرم تبدیل کرکے ان دونوں میں سے کوئی بھی مذہب اختیار کرنے والا ریزرویشن کا آئینی حق کھو دیتا ہے۔

1950کا (شیڈولڈ کاسٹ) آئینی حکم نامہ بھارتی شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے
1950کا (شیڈولڈ کاسٹ) آئینی حکم نامہ بھارتی شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہےتصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

یہ دلیل بے بنیاد ہے

سماجی اور مذہبی تنظیموں نے مودی حکومت کی اس دلیل کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

سماجی کارکن اور جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر محمد سلیم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 1950کا (شیڈولڈ کاسٹ) آئینی حکم نامہ بہت خطرناک ہے کیونکہ یہ بھارتی شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی بھی اسی وجہ سے مخالفت کی گئی تھی کیونکہ یہ مذہبی بنیاد پر تفریق کرتا ہے۔

بھارت میں خواتین پر مظالم: نچلی ذات والوں اور مسلمانوں کے ليے انصاف کے پیمانے مختلف

انجینئرمحمد سلیم کا کہنا تھا کہ تمام انصاف پسند اس آئینی حکم کے خلاف ہیں۔ حتی کہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ جسٹس رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے بھی سن2007 میں اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ شیڈولڈ کاسٹ کے ریزرویشن کا معاملہ مذہب سے بالکل الگ رکھا جائے۔ اور آئین نے جن گروپوں اور ذاتوں کو شیڈولڈکاسٹ کا درجہ دیا ہے اگر ان کے افراد کوئی دوسرا مذہب قبول کرلیتے ہیں تب بھی ان کی سابقہ حیثیت برقرار رہنی چاہئے۔جس طرح کہ شیڈولڈ ٹرائب یعنی قبائلیوں  کے معاملے میں ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی آئین میں ابتدا طور پر یہ کہا گیا تھا کہ جو ہندو شیڈولڈ کاسٹ ہیں انہیں شیڈولڈ کاسٹ ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے بعد 1956میں آئین میں ترمیم کر کے سکھ مت اختیار کرلینے پر بھی شیڈولڈ کاسٹ کا درجہ برقرار رکھا گیا۔ سن1990میں آئین میں ایک اور ترمیم کی گئی جس میں ہندو دلت یا شیڈولڈ کاسٹ کے بودھ مت اختیار کرلینے پر بھی ان کا شیڈولڈ کاسٹ کا درجہ اور انہیں ملنے والی تمام مراعات برقرار رکھی گئیں۔ تاہم اسلام یا مسیحیت اختیار کرلینے کے بعد یہ رعایت چھین لی گئی۔

انجینئر محمد سلیم کہتے ہیں کہ یہ پہلے سے ہی تفریقی تھا اور آئین میں ترمیم کرکے اسے مزید تفریقی بنادیا گیا۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید