1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
لٹریچرشام

معروف شامی ادیب اور حکومتی ناقد خالد خلیفہ کا انتقال

1 اکتوبر 2023

شام کے معروف ادیب اور ماضی میں شامی حکمرانوں پر کڑی تنقید کی وجہ سے سرخیوں کا موضوع بننے والے خالد خلیفہ انتقال کر گئے ہیں۔ وہ دمشق میں رہتے تھے اور ان کی عمر انسٹھ برس تھی۔ ان کا انتقال حرکت قلب بند ہو جانے سے ہوا۔

https://p.dw.com/p/4X1DA
شامی ادیب خالد خلیفہ کی ایک تصویر
شامی ادیب خالد خلیفہ جن کا انسٹھ برس کی عمر میں ناتقال ہو گیاتصویر: Aiham Dib

کئی برسوں سے خانہ جنگی کے شکار عرب ملک شام کے دارالحکومت دمشق سے اتوار یکم اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ خالد خلیفہ کے ایک بہت قریبی دوست نے بھی ان کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔

شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے صدر اسد کا پہلا دورہ چین

پیدائشی طور پر خالد خلیفہ کا تعلق شامی صوبے حلب کے قصبے مریمین سے تھا۔ وہ ایک معروف نال نگار بھی تھے اور ٹی وی ڈرامے لکھنے والے ایک کامیاب مصنف بھی۔ اس کے علاوہ ان کے کالم باقاعدگی سے کئی عربی اخبارات میں بھی شائع ہوتے تھے۔ انہیں عرب دنیا کے کئی اعلیٰ ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

گھر پر تنہائی میں انتقال

خالد خلیفہ کے ایک قریبی دوست اور زندگی کے آخری دنوں میں اس شامی ادیب کے ساتھ کافی زیادہ وقت گزارنے والے صحافی یاروب الیسا نے بتایا، ''ہفتے کے روز انتقال کے وقت خالد خلیفہ دمشق میں اپنے گھر پر اور اکیلے تھے۔ ہم نے انہیں کئی مرتبہ فون کیا اور ہمیں کوئی جواب نہ ملا۔ اس کے بعد ہم ان کے گھر گئے اور دیکھا کہ وہ اپنے صوفے پر بیٹھے تھے اور ان کا انتقال ہو چکا تھا۔‘‘

بشارالاسد کی حامی ملیشیا کا مبینہ رہنما جرمنی میں گرفتار

 شامی صدر بشار الاسد کی ایک تصویر
خالد خلیفہ شامی صدر بشار الاسد اور ان کی بعث پارٹی کے کڑے ناقد تھےتصویر: via REUTERS

بعد ازاں شامی دارالحکومت کے عباسین ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ان کی لاش کے معائنے کے بعد کہا کہ خالد خلیفہ کا انتقال حرکت قلب بند ہو جانے سے ہوا تھا۔

شام میں حکمران بعث پارٹی کے کڑے ناقد

خالد خلیفہ کو ملنے والی شہرت کا آغاز 1990ء کی دہائی کے اوائل میں شامی ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی ایک بہت مقبول ڈرامہ سیریز سے ہوا تھا، جو انہوں نے لکھی تھی۔

عرب لیگ کا بارہ سال بعد شام کی رکنیت بحال کرنے کا فیصلہ

وہ شام میں حکمران بعث پارٹی کے کڑے ناقدین میں شمار ہوتے تھے اور اپنے اخباری کالموں میں بھی اکثر دمشق میں حکمرانوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔

اس شامی ادیب کی خاص بات یہ تھی کہ ان کا اپنے وطن کے حکمرانوں سے متعلق موقف بڑا واضح تھا لیکن 2011ء میں پہلے حکومت مخالف عوامی مظاہروں کے آغاز اور پھر ان کے ایک باقاعد خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لینے کے بعد بھی ان کا فیصلہ یہی تھا کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ملک نہیں جائیں گے۔

اس بارے میں انہوں نے 2019ء میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ''میں اب بھی یہاں اس لیے رہتا ہوں کہ یہ میرا ملک ہے۔ میں یہیں پیدا ہوا تھا۔ اور میں یہیں مرنا چاہتا ہوں۔‘‘

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اہم ترین جرمن ادیبوں میں سے ایک، مارٹن والزر انتقال کر گئے

'نفرت کی مدح میں‘

خالد خلیفہ کی مشہور ترین تصنیفات میں سے ایک ان کا 2006ء میں شائع ہونے والا ناول 'نفرت کی مدح میں‘ بھی ہے۔ اس ناول کو عرب فکشن کے بین الاقوامی انعام کے لیے شارٹ لسٹ بھی کیا گیا تھا۔

عالمی شہرت یافتہ چیک ادیب میلان کنڈیرا انتقال کر گئے

عرب دنیا کا یہ ادبی انعام عرف عام میں عرب بکر پرائز بھی کہلاتا ہے۔ خلیفہ کا یہ ناول دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ یہ ناول حلب سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی جوان شامی خاتون کے بارے میں ہے، جو اپنی بےربط زندگی سے نکلنے کے لیے ایک جہادی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہے۔

عہد حاضر کے معروف ترین ہسپانوی ادیب ماریاس انتقال کر گئے

2013ء میں خالد خلیفہ کا ایک اور ناول شائع ہوا تھا، جس کا عنوان تھا: ''اس شہر کے باورچی خانوں میں کوئی چاقو نہ ہوں۔‘‘ اس ناول پر انہیں نجیب محفوظ لٹریچر پرائز سے نوازا گیا تھا، جو مصر کے اعلیٰ ترین ادابی اعزازات میں سے ایک ہے۔

خالد خلیفہ کو آج اتوار یکم اکتوبر کے روز دمشق میں سپرد خاک کیا جانا تھا۔

م م / ع س (اے ایف پی)