1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہسا امینی: یورپی یونین ایران پر پابندیاں عائد کرنے پر متفق

13 اکتوبر 2022

پولیس کی حراست میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے بدامنی کو روکنے کی کوشش میں ایرانی فورسز کارکنوں، صحافیوں اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4I6xt
Proteste Iran | Mahabad
تصویر: UGC

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف جس سختی سے تہران کا کریک ڈاؤن جاری ہے، اس تناظر میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے بدھ کے روز ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے پر اتفاق کر لیا ہے۔

ایران: کیا مخالفین کی آواز انٹرنیٹ پر بھی دبا دی گئی؟

یورپی کمیشن کی صدر ارزلا فان ڈیئر لائن نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا: ''ایران کی بہادر خواتین آزادی اور مساوات کا مطالبہ کر رہی ہیں، وہ اقدار جن پر یورپ یقین رکھتا ہے اور ان کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''تشدد بند ہونا چاہیے۔ خواتین کو اپنی پسند کا انتخاب کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اس حیران کن تشدد کا جواب دیا جانا بہت ضروری ہے۔ یہ جبر کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا وقت ہے۔''

تاہم اس بارے میں کوئی خاص تفصیلات نہیں بتائی گئیں، کہ ان پابندیوں کی نوعیت کیا ہوگی اور اس کے کیا اثر مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور ای ایف ای کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے سفارت کاروں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس کی توثیق آئندہ پیر کو اس وقت کی جائے گی، جب لگزمبرگ میں یونین کے وزراء خارجہ کا اجلاس ہو گا۔

ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید

امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا جیسے بعض ممالک اس ضمن میں تہران کے خلاف پابندیوں کے ایک حصے کے طور پر ایرانی حکومت کی مختلف سیکورٹی شاخوں کو الگ الگ طرح سے نشانہ بنا چکے ہیں۔

 گزشتہ ماہ ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس نے 22 سالہ خاتون مہسا امینی کو گرفتار کیا تھا اور پھر پولیس کی تحویل میں ہی ان کی موت ہو گئی تھی۔

امریکہ نے جن ایرانی حکام پر پابندیاں عائد کی ہیں اس میں ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی اور وزیر مواصلات عیسی زری پور کے علاوہ پانچ اہم دیگر اہلکار بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ جو بھی ایرانی حکام مظاہرین کے خلاف تشدد میں ملوث ہیں واشنگٹن ان کو یونہی نہیں چھوڑنے والا ہے۔

ایرانی مذہبی رہنما کی جانب سے مظاہرین کے خلاف سخت ترین کاروائی کا مطالبہ

انیس شہروں میں احتجاج

اس دوران کارکنوں کے مطابق بدھ کے روز بھی ایران کے کم از کم 19 شہروں میں امینی کی موت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ مظاہروں سے نمٹنے کے لیے تہران اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر فساد سے نمٹنے والی پولیس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں سادہ لباس میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔

Türkei Istanbul | Frauenrechte im Iran - Protest wegen Tod von Mahsa Amini
بدھ کے روز بھی ایران کے کم از کم 19 شہروں میں امینی کی موت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہاتصویر: OZAN KOSE/AFP/Getty Images

اطلاعات کے مطابق حکام نے اس دوران انٹرنیٹ پر بھی جزوی پابندیاں عائد کیں اور اس کی رفتاربہت کم کر دی گئی۔ ایڈوکیسی گروپ نیٹ بلاکس کا کہنا ہے کہ ایران کی انٹرنیٹ ٹریفک اعلی اسپیڈ کے مقابلے میں تقریباً 25 فیصد تک گر گئی۔

ادھر وکلاء برادری نے دارالحکومت میں ایران سینٹرل بار ایسوسی ایشن کے سامنے مظاہرہ کیا اور بطور احتجاج یہ نعرے بلند کیے: ''عورت، حیات اور آزادی۔''

نیویارک میں ایران سے متعلق قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ حکام کی جانب سے جب وکلاء پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے، تو وہ سیکورٹی فورسز سے بچنے کے لیے وہاں سے فرار ہو گئے۔

ایران: مظاہرین کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ کی جائے، صدر رئیسی

ادارے کے مطابق تہران میں جن تقریباً دو درجن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، اس میں کم از کم تین وکلاء بھی شامل ہیں۔

ایرانی حکام ایسے مظاہروں کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے رہے ہیں، جو اب اپنے پانچویں ہفتے میں پہنچ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ اب تک سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں   185 افراد ہلاک  ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ایک 22 سالہ کردایرانی خاتون مہسا امینی کی ستمبر میں پولیس کی حراست میں اس وقت موت ہوگئی تھی، جب ایران کی ''اخلاقی پولیس'' نے صحیح طریقے سے حجاب نہ کرنے کے الزام میں، انہیں حراست میں لیا تھا۔

ان کی موت نے ایران کے شہروں میں بے مثال مظاہروں کو جنم دیا اور خواتین نے حجاب کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اپنے بال کاٹ دیے اور اپنے بعض نے اپنے حجاب تک جلا دیے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے