1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستحقین کو زکوة ضرور دیں، لیکن پہلے گھر والوں کا احساس کریں

21 مارچ 2024

زکوة تو ایک دینی معاملہ ہے لیکن اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کا دھیان رکھنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اعتدال سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں فرائض نبھانا چاہییں۔

https://p.dw.com/p/4dyIV
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

ہمارے ایک جاننے والے ہیں۔ انہوں نے بھلے وقتوں میں ایک چھوٹا سا مکان بنا لیا تھا۔ آج شکر ادا کرتے ہیں کہ اس وقت انہوں نے مکان بنوا لیا وگرنہ آج کے دور میں وہ یہ مکان نہ بنا پاتے۔ وہ اس گھر میں اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہیں جبکہ بیوی گھر کے معاملات سنبھالتی ہیں۔ چاروں بچے قریبی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ان کی ماہانہ آمدن بس گزارے لائق ہے۔ مہینے کے آخر تک ان کی جیب تقریباً خالی ہو جاتی ہے۔ گھر والے اس آمدن کے مطابق ہی گزارا کرتے ہیں۔ بچوں کی زندگی بس سکول اور گھر تک محدود ہے۔ دو تین ماہ بعد میاں بیوی بچوں کو کسی رشتے دار یا پارک میں تفریح کے لیے لے جاتے ہیں۔

گھر میں سادہ کھانا بنتا ہے۔ مہینے میں تین بار مرغی کا گوشت اور ایک بار گائے کا گوشت بن جاتا ہے۔ کبھی بہت دل چاہے اور جب اجازت دے تو دو تین ماہ میں بکرے کا گوشت بھی بنا لیتے ہیں۔

اپنی محدود آمدن سے ہر ماہ کچھ بچت کر کے انہوں نے اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے کچھ سونا جمع کر رکھا ہے۔ ان کی بیوی کو اپنے والدین کی طرف سے کافی سونا ملا تھا، اسے بھی انہوں نے بچوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیا۔

یہ سونا اسلامی لحاظ سے نصاب سے زیادہ بنتا ہے۔ گرچہ انہوں نے یہ سونا اپنے بچوں کی شادی کے لیے رکھا ہوا ہے اور یہ ان کے استعمال میں بھی نہیں ہے لیکن ان کے لیے اس پر ہر سال زکوة ادا کرنا لازم ہے۔

مفتیانِ اکرام کے مطابق اگر سونا،چاندی یا نقدی صرف ایک شخص کی ملکیت ہے اور اس کی مالیت نصاب سے زیادہ ہے، چاہے وہ کسی بھی نیت سے جمع کر کے رکھا ہو، اسے اس پر زکوة لازمی ادا کرنی ہوگی۔

البتہ اگر کوئی جائیداد اس نیت سے خریدی ہو کہ یہ مستقبل میں بچوں کی تعلیم، شادی یا کسی ہنگامی صورتحال میں کام آئے گی تو اس پر زکوة ادا کرنا لازمی نہیں ہے۔

تاہم، اگر سونا، چاندی یا نقدی گھر کے اشخاص کے درمیان تقسیم کر دی جائیں اور  اس تقسیم کے پیچھے نیت ہر شخص کو اس کا حصہ دینا ہو اور زکوة سے بچنا نہ ہو تو اس صورت میں ہر شخص پر اس کے انفرادی نصاب کے حساب سے زکوة لاگو ہو گی۔ اگر کسی کا مال نصاب پر پورا اترتا ہو تو وہ زکواة ادا کرے گا ورنہ وہ زکواة سے مستثنیٰ ہے۔

خیر، اس بلاگ کا مقصد زکواة کے احکامات بیان کرنا نہیں ہے۔ ہم ان صاحب کا ذکر کر رہے ہیں جو سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود صاحبِ نصاب ہیں اور ہر سال زکواة ادا کرتے ہیں۔

یہ کچھ نہ کچھ کر کے ہر سال زکوة کی رقم جمع کرتے ہیں اور پھر اسے مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن اس تقسیم کے دوران وہ احساسِ برتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ جیسے تیسے کر کے زکوة کی رقم جمع کرتے ہیں اور پھر سے مستحقین میں بانٹتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ پورا حساب لگاتے ہیں کہ کس کو راشن دینا ہے اور کس کو پیسے دینے ہیں۔

جس پر انہیں شک ہو کہ وہ پیسوں کو رمضان کے راشن کے لیے استعمال نہیں کرے گا اسے وہ سیدھا راشن ہی پہنچاتے ہیں۔ پھر اسے بتاتے ہیں کہ دیکھو حکومت تو اپنے راشن میں بس دو چار چیزیں دے رہی ہے، میں باقی سامان کے ساتھ چاٹ مصالحہ اور کیچپ تک دے رہا ہوں۔

جسے پیسے دینے ہوں اس کا بھی پورا حساب لگاتے ہیں۔ کس کو پانچ ہزار دینے ہیں، کس کو دس ہزار تو کس کو بس دو ہزار۔

مستحق افراد جب ان کے گھر سے راشن جاتا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کے دروازے پر آ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ اس وقت جھنجھلاتے ہیں لیکن اس میں بھی ایک فخر اور احساسِ برتری محسوس کرتے ہیں جو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پھر وہ اپنی یہ جھنجھلاہٹ اپنے جاننے والوں کو فخریہ سناتے ہیں۔

مفتانِ کرام کہتے ہیں کہ زکواة کسی کی عزت نفس مجروح کیے بغیر دینی چاہیے لیکن ہمارے ہاں زکواة دینا ایک اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔

بعض لوگ بڑے فخر سے دوسروں کو بتاتے ہیں کہ ہماری تو زکوة ہی اتنے لاکھ بنتی ہے۔ ان کے گھروں کے حال دیکھو تو ایسے لگتا ہے جیسے انہیں خود زکوة کی ضرورت ہو۔ ٹوٹے پھوٹے برتن، بہتے ہوئے نلکے، خراب مشینیں، گھسے ہوئے بستر، اور اکھڑے ہوئے  پینٹ۔

گھر کوئی مہمان آ جائے تو یہ بچوں کو پہلے ہی سمجھا دیتے ہیں کہ ان کے لیے بنایا ہوا کھانا تم نے نہیں کھانا۔ ان کے جانے کے بعد کچھ بچ گیا تو کھا لینا۔

گرمیوں میں دن بھر صرف ایک پنکھا چلتا ہے اور رات میں  اے سی صرف تین گھنٹے چلاتے ہیں۔ بجلی کا بِل ایک ہزار ضائع آ جائے تو یہ گھر والوں پر برس پڑتے ہیں۔

عید پر اپنے اور گھر والوں کے کپڑے رو رو کر بناتے ہیں، کبھی تو بناتے ہی نہیں کہ اس بار جیب اس خرچ کی جازت نہیں دے رہی۔ پھر ان کے بچے انہیں دوسروں کو زکوة دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں حسرت سے بھر جاتی ہیں۔

زکوة تو ایک دینی معاملہ ہے لیکن اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کا دھیان رکھنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اعتدال سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں فرائض نبھانے چاہیے تاکہ ایک طرف سے ثواب کمانے کے چکر میں دوسری طرف کسی کاحق نہ مار بیٹھیں۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔