1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مردوں کے معاشرے میں خواتین اپنا حوصلہ بلند رکھیں

24 نومبر 2023

بس اسٹینڈ پر انتظار کی زحمت اور کنڈیکٹرز کی گندی نظروں سے بچنے کے لیے پاکستان میں اب بائیک چلانے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان خواتین کو مرد یوں دیکھتے ہیں کہ جیسے بائیک کوئی خلائی مخلوق چلا رہی ہو۔

https://p.dw.com/p/4ZOv9
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

قیامِ پاکستان سے ہی سننے کو مل رہا ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ اس محاورے کو کس نے زبان زدِ عام کیا یہ معلوم نہیں۔ شاید اسی لیے ہمارے ملک میں خواتین کی شکایات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔

سنگین مسئلہ ہے کہ تعلیم، نوکری یا کسی ضرورت کے تحت جیسے ہی گھر سے کوئی خاتون باہر نکلتی ہے تو اسے باہر کی دنیا میں انوکھا ہی سماں ملتا ہے۔ چاہے وہ دفتری حدود ہو یا بس اسٹینڈ، راستے میں خاتون کو دیکھ کر آواز کسنا، گانا گنگنانا، سیٹی مارنا، بائیک کی سپیڈ تیز کرنا اب صرف نوجوان لڑکوں کا کام نہیں رہا اس کارِ خیر میں ادھیڑ عمر کے مردوں کے تو کیا ہی کہنے۔ دراصل جہالت اور عدمِ احترام ہمارے سماج کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

راہگیر خاتون خواہ اس نے حجاب ہی کیوں نہ اوڑھا ہو کچھ اور نہیں تو اس کے پاؤں پر تبصرہ ہونے لگتا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ بحیثیت قوم ہم کس ڈگر پر گامزن ہیں ؟

یہ المیہ ہے کہ خواتین گھر سے باہر نکلیں تو بعض مرد ان کو پزل کرنے کی غرض سے اوور ایکٹینگ شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی خاتون کسی مرد کے خلاف شکایت کی جسارت بھی کرے تو اس پر بلیک میل کرکے دولت سمیٹنے اور سستی شہرت کے لیے جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے۔

یہی ٹھوس وجہ ہے کہ خواتین پولیس اسسٹیشنز کا رخ کرنے سے بھی گھبراتی ہیں کہ اگر شکایت کی تو ان کی بہنوں کے رشتے نہیں ہوں گے یا انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑےگا یا ہو سکتا ہے کہ گھر والے گھٹن زدہ ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تعلیم پر قدغن لگا کر اسے تعلیم کے زیور سے محروم کردیں۔ اس لیے خواتین خاموشی کے ساتھ غصہ کو قابو میں رکھتے ہوئے گزر جاتی ہیں۔

پانچ سے سات سال قبل یہ گمان نہیں کیا جاسکتا تھا کہ پاکستانی خواتین معاشرتی رسم ورواج کی پابندیوں کے برعکس موٹر بائیک چلائیں گی۔

موسمیاتی سختیوں کے باوجود بس اسٹینڈ پر انتظار کی زحمت اور اس میں بھی بیٹھنے کے لیے سیٹ ملنے کی کوئی گارنٹی نہ ہونا نیز کنڈیکٹرز کی گندی نظروں سے بچنے کےلیے پاکستانی معاشرے میں اب بائیک چلانے والی خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی خواتین جو ٹرانسپورٹ کی بناء پر اپنے شوہر، والد یا بھائیوں کے ہمراہ اپنے تعلیمی اداروں، دفاتر، کلینک یا شاپنگ سپاٹ پر جانے پر مجبور ہوتی تھیں۔ اب وہ موٹر بائیک پر آسانی سے کہیں بھی پہنچ سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں مہنگائی کے اس دور میں جگہ جگہ ٹرانسپورٹ تبدیل کرنے سے بےجا خرچوں میں نمایاں کمی آتی ہے۔

خواتین کا اپنی مدد آپ کے تحت اسکوٹی، بائیک پر سفر کرنا ایک خوش آئند عمل ہے۔ سڑک پر ہی کچھ مرد بائیک پر سوار خواتین کے ساتھ ریس چیلنج شروع کر دیتے ہیں۔ پھٹی پھٹی نگاہوں سے کبھی بائیک کی سپیڈ تیز کبھی کم کرکے خاتون کا جائزہ لیتے ہیں۔

جو خواتین اس سواری سے مستفید ہو رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ غیر مہذب رویوں کی شکایات تو ایک عام چیز ہے۔ بس اسٹاپ پر کئی مرد حضرات اپنی سواری روک کر یا دھیرے کرکے آنکھوں سے خواتین کو لفٹ کا اشارہ کر دیتے ہیں، جو کہ کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ لہذا خواتین ہمت و حوصلہ کی مثال بنیں، مضبوط رہیں ورنہ انجانے حزن سے وہ اپنے تابناک مستقبل سے محروم رہ سکتی ہیں۔ 

ہمارے معاشرے میں دقیانوسی سوچ کے حامل افراد خودمختار بائیک چلانے والی خواتین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ خواتین کا بائیک پر اس انداز سے بیٹھنا ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ نہیں۔ حالانکہ یہ سب کم عملی و جہالت کا نتیجہ ہے، عرب ممالک میں خواتین اونٹوں اور گھوڑوں پر اسی طرز سے بیٹھتی ہیں۔

مرد اور عورت دونوں ہی معاشرے کے معمار ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے کردار کو ہٹا کر ہم معاشرتی استحکام و بقاء کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ جس طرح ہر ایک اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی کو مقدس سمجھتا ہے، اسی طرح دوسری خواتین کے احترام کو بھی لازمی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔