1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متحدہ عرب امارات میں ہولوکاسٹ نصاب تعلیم کا حصہ

30 جنوری 2023

متحدہ عرب امارات نے ہولوکاسٹ کے موضوع کو باقاعدہ طور پر نصاب تعلیم کا حصہ بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ فی الحال اس بابت زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Msi2
VAE Jüdische Gemeinde | Crossroads of Civilizations Museum
تصویر: Karim Sahib/AFP

مشرقِ وسطیٰ میں اس نوعیت کا یہ انوکھا فیصلہ ہے کہ اسکولوں میں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کے موضوع کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جائے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات اس موضوع کی بابت کیا پڑھائے گا اور یہ سلسلہ کب سے شروع ہو گا۔

ہولوکاسٹ یادگاری دن، جرمن پارلیمان کا اظہار عقیدت

جرمنی: سابقہ نازی کیمپ کے سیکرٹری کے لیے معطل سزا کی استدعا

جنوری کے آغاز پر متحدہ عرب امارات کے امریکا میں قائم سفارتخانے نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ یہ عرب ملک پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے نصاب تعلیم میں ہولوکاسٹ کو شامل کرنے جا رہا ہے۔ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ اقدام ابراہیمی معاہدے کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔ دو برس قبل اس معاہدے کے ذریعے متحدہ عرب امارت کے ساتھ ساتھ بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔

اس سے قبل انیس سو اناسی میں مصر اور انیس سو چورانوے میں اردن اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر چکے ہیں تاہم متعدد عرب ممالک اسرائیل کو اب بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اب لیکن متحدہ عرب امارات اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ہولوکاسٹ کی تاریخ کو نصابی کتب میں شامل کر رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ہولوکاسٹ بہ طور ایک عام نصابی موضوع عرب دنیا میں ایک انوکھی بات ہو گی۔

گزشتہ برس متحدہ عرب امارات کی وفاقی قومی کونسل کے ایک رکن علی النوعیمی نے کہا تھا کہ ہولوکاسٹ کے متاثرین کو یاد کرنا نہایت ضروری ہے۔

متحدہ عرب امارات کے اس اعلان کو اسرائیلی وزارت خارجہ نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس بابت ٹوئٹر پر عربی زبان میں کی گئی ایک ٹوئٹ میں اس اقدام کو 'تاریخی‘ قرار دیا۔

امریکی مندوب  برائے انسداد سامیت دشمنی ڈیبرہ لِپشڈٹ نے بھی اس منصوبے کی تعریف کی ہے اور توقع ظاہر کی کہ دیگر ممالک بھی یہی راستہ اختیار کریں گے۔

مزید معلومات دستیاب نہیں

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ نصابی کتب میں ہولوکاسٹ سے متعلق کیا مواد شامل کیا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ایک اخبار دی نیشنل کے مطابق اس سلسلے میں یروشلم کے یاد واشم ورلڈ ہولوکاسٹ یادگاری سینٹر اور اسکولوں میں ثقافتی برداشت اور امن کی نگرانی کرنے والے اسرائیلی برطانوی انسٹیٹیوب IMPACT-SE سے معاونت لی جا رہی ہے۔

IMPACT-SE کے سربراہ مارکس شیف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کا ادارہ بہ خوشی ہولوکاسٹ سے متعلق تمام تر ضروری معلومات اور تجاویز فراہم کرنے کو تیار ہے۔

اس ادارے کی جانب سے تاہم اب تک اس سلسلے میں کوئی حتمی مسودہ تیار نہیں کیا گیا ہے جبکہ یاد واشم کو بھی کوئی مجوزہ مسودہ موصول نہیں ہوا ہے۔ مقامی اخبار دی نیشنل کے مطابق نصابی کتب کے لیے ہولوکاسٹ سے متعلق ایک حتمی مسودہ تیاری کے مراحل میں ہے تاہم اس کی اشاعت کی کوئی حتمی تاریخ فی الحال نہیں دی گئی ہے۔

یہودی برادری کو فخر

متحدہ عرب اماراتمیں مقیم یہودی اقلیت نے اس پروجیکٹ کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے ایک 'قابل فخر منصوبہ‘ قرار دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی یہودی برادری کے سربراہ ایلکس پیٹرفروئنڈ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ''ہولوکاسٹ کی تعلیم دے کر متحدہ عرب امارات یہ بتانا چاہتا ہے کہ جب مختلف مذاہب یا ثقافتوں سے وابستہ لوگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، تو کیا ہوتا ہے۔‘‘

پیٹرفروئنڈ کا تعلق بیلجیم سے ہے اور وہ سن دو ہزار چودہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ ان کے گرینڈ پیرنٹس کو ہولوکاسٹ میں قتل کیا گیا تھا۔

کیرسٹین کنیپ (ع ت، ع س)