1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماں نے بیٹے کو مگر مچھوں سے بھری نہر میں پھینک دیا،لاش برآمد

جاوید اختر، نئی دہلی
6 مئی 2024

جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک میں ایک خاتون نے اپنے شوہر سے لڑائی کے بعد اپنے چھ سالہ معذور بیٹے کو مگر مچھوں سے بھری نہر میں پھینک دیا، بچے کی مسخ شدہ لاش برآمد ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4fXSw
پولیس نے بتایاکہ اتوار کی صبح بچے کی لاش نکالنے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن اس کا ایک ہاتھ غائب تھا
پولیس نے بتایاکہ اتوار کی صبح بچے کی لاش نکالنے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن اس کا ایک ہاتھ غائب تھاتصویر: Imago/Zumapress

پولیس کے مطابق ساوتری نامی ایک خاتون نے سنیچر کے روز اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑے کے بعد اپنے چھ سالہ بیٹے کو اتراکنڑا ضلعے کے ڈنڈیلی قصبے میں کالی ندی کے قریب واقع نہر میں پھینک دیا، جہاں مگر مچھ بڑی تعداد میں موجود تھے۔

پولیس کے مطابق ساوتری کا اپنے شوہر 27 سالہ روی کمار سے اکثر جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ شوہر اسے طعنہ دیا کرتا تھا کہ اس نے ایک گونگے بچے کو کیوں جنم دیا۔ پولیس کے مطابق وہ ساوتری کو مبینہ طور پر اپنے بچے کو کہیں پھینک دینے کے لیے اکساتا رہتا تھا۔

بھارت: اعلی تعلیم یافتہ ماں پر اپنے بچے کے قتل کا الزام

اکثر بھارتی باشندے ذہنی صحت سے متعلق مشوروں پر کیوں بھروسہ نہیں کرتے

جب پڑوسیوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس کو مطلع کیا، جس کے بعد اسے تلاش کرنا شروع کیا لیکن تاریکی کے سبب پولیس بچے کو تلاش نہیں کر سکی۔

پولیس کے ایک افسر نے بتایاکہ اتوار کی صبح بچے کی لاش نکالنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن اس کا ایک ہاتھ غائب تھا، اس کے جسم پر شدید چوٹیں تھیں اور کاٹے جانے کے نشانات بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ بچہ مگر مچھ کے حملے کا شکار ہو گیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور معاملے کی مزید تفتیش جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت میاں اور بیوی دونوں کے خلاف معاملہ درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان پرجرم کے لیے ترغیب دینے اور قتل جیسے دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

کالی ندی کے قریب واقع نہر میں مگر مچھ بڑی تعداد میں موجود تھے
کالی ندی کے قریب واقع نہر میں مگر مچھ بڑی تعداد میں موجود تھےتصویر: Reuters/A. Perawongmetha

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہرین نفیسات کا خیال ہے کہ ماؤں کی جانب سے  اپنے بچوں کو قتل کرنے کا انتہائی قدم اکثر اسی وقت اٹھایا جاتا ہے، جب وہ ڈپریشن یا کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں اور یا انہیں کسی طرح کا سماجی، جسمانی یا جذباتی تعاون حاصل نہ ہو۔

دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈپارٹمنٹ آف سائیکالوجی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شیما علیم کا کہنا تھا، ''ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کو بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا جب کہ یہ معاشرے کا مسئلہ ہے۔ ہم مینٹل ایشوز کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتے اور اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور ڈپریشن کا مریض جب مسائل کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا ہے تو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔‘‘

اسلامک سائیکالوجی جسے مسلمان سمجھ نہ سکے

سوشانت سنگھ کی موت: بالی ووڈ کا تاریک پہلو عیاں

شیما علیم کا کہنا تھا کہ ذہنی پریشانی یا ڈپریشن کے شکار شخص کو فوراً کسی ماہر طبیب کے پاس لے جانا چاہیے۔ ان کے بقول لوگ نفسیاتی مرض کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دبانے سے دباؤ بڑھے گا اور پھر یہ کسی نہ کسی شکل میں پھٹ جائے گا۔‘‘

پہلے بھی ایسے جرائم ہو چکے ہیں

اس سال کے اوائل میں سوچنا سیٹھ نامی خاتون کے واقعے نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک اہم کمپنی کی سی ای او سوچنا نے اپنے چھ سالہ بیٹے کو گوا کے ایک ہوٹل میں لے جاکر قتل کر دیا تھا۔ لیکن وہ اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑی گئی تھیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ سوچنا سیٹھ ''آرٹیفیشئل انٹیلی جنس میں دنیا کی 100 ذہین ترین خاتون‘‘ میں شمار ہوتی ہیں۔

گزشتہ سال بنگلور ومیں بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے تھے۔ جب ایک ڈینٹسٹ خاتون نے اپنی چار سالہ معذور بیٹی کو چوتھی منزل سے نیچے پھینک کر مار ڈالا تھا۔ جب کہ ایک دیگر واقعے میں ایک ماں نے اپنی بیٹی کو قتل کرنے کے بعد خود بھی خودکشی کر لی تھی۔

جاوید اختر