1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیاں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے بھی خطرہ

16 دسمبر 2021

موسمياتی تبديليوں سے انسانوں اور جانوروں کی بقا کو تو خطرہ لاحق ہے ہی مگر ساتھ ہی ہماری دنيا ميں موجود وسائل بھی اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہيں۔ آنے والے وقتوں ميں تيل اور گيس کی قلت بھی ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/44NKq
USA | Raffinerie in Detroit
تصویر: Paul Sancya/AP Photo/picture alliance

موسمياتی تبديليوں کے سبب آنے والے طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کی وجہ سے دنيا بھر ميں تيل اور گيس کے ذخائر  تک رسائی ناممکن ہو سکتی ہے۔ يہ انکشاف برطانوی کنسلٹنسی فرم 'ويرسک ميپل کروفٹ‘ نے اپنی تازہ رپورٹ ميں کيے ہيں۔

تازہ تحقيق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے تيل اور گيس کے چاليس فيصد ذخائر يا چھ سو بلين بيرل تک رسائی ختم ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب، عراق اور نائجيريا اس صورتحال سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔

 دنيا بھر ميں سب سے زيادہ خام تيل ايکسپورٹ کرنے والے ملک سعودی عرب ميں بے انتہا گرمی، پانی کی قلت اور ريت کے طوفان رکاوٹ بن سکتے ہيں۔ نائجيريا افريقہ ميں تيل کا دوسرا سب سے بڑا ايکسپورٹر ملک ہے۔ وہاں تيل اور گيس کے ذخائر نائجر ڈيلٹا کے دريائی سلسلے ميں پائے جاتے ہيں۔ اس علاقے ميں خشک سالی اور سيلابوں کا خطرہ ہے۔

موسمياتی تبديليوں کے اثرات اس صنعت پر رواں سال اس وقت ديکھے گئے، جب امريکی گلف کوسٹ پر واقع خام تيل ريفائن کرنے کا سب سے بڑا مرکز شديد سرد موسم کے باعث بند پڑا رہا۔ اس کے نتيجے ميں تيل اور گيس کی قلت ديکھی گئی۔  'ويرسک ميپل کرافٹ‘ ميں ماحوليات سے متعلق امور کے تجزيہ کار روری کلسبی کے بقول، ''مستقبل ميں ايسے واقعات زيادہ شدت کے ساتھ اور تواتر سے ہونے لگيں گے۔ اس سے اس صنعت کو کافی نقصان پہنچے گا۔‘‘

اس وقت دنيا بھر ميں تيل اور گيس کے دس فيصد ذخائر ايسے مقامات پر موجود ہيں، جن کے بارے ميں ماحولياتی و موسمياتی ماہرين کی رائے ہے کہ وہ انتہائی زيادہ خطرناک علاقوں ميں واقع ہيں۔ ايک تہائی کے بارے ميں ماہرين کی رائے ہے کہ وہ 'ہائی رسک‘ علاقوں ميں واقع ہيں۔

ع س / ع ب (روئٹرز)