1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: تباہ کن سیلاب میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزارسے متجاوز

13 ستمبر 2023

طوفان کے بعد آنے والے سیلاب نے مشرقی لیبیا کے شہر درنہ کو بری طرح تباہ کر دیا ہے۔ پانچ ہزار سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ ذرائع نے لاپتہ افراد کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ بتائی ہے۔

https://p.dw.com/p/4WGiL
ماہرین کے مطابق سن 1963 میں ملک میں آنے والے المرج زلزلہ کے بعد سے یہ اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت ہے
ماہرین کے مطابق سن 1963 میں ملک میں آنے والے المرج زلزلہ کے بعد سے یہ اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت ہےتصویر: Jamal Alkomaty/AP Photo/picture alliance

مشرقی لیبیا کی حکومت کے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق الخراز کا کہنا ہے کہ تباہ کن سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5200 ہو گئی ہے۔ طارق الخراز نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا امدادی کاموں میں مصروف کارکنان لاشیں نکالنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع سے ہلاک و لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے کیے جانے والے دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

الخراز نے مزید  بتایا کہ درنہ شہرکا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ ان کے بقول سمندری طوفان ڈینیئل کی وجہ سے شہر کے دو ڈیم ٹوٹ گئے اور سیلابی ریلہ اپنے ساتھ عمارتوں اور لوگوں کو بہا کر لے گیا۔ شہات بلدیہ کے میئر حسین بودرویشا نے ڈی پی اے کو بتایا کہ طوفانی بارش کی وجہ سے خطے کے تقریباً 20000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پانی بھر گیا۔

ماہرین کے مطابق سن 1963 میں ملک میں آنے والے المرج زلزلہ کے بعد سے یہ اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت ہے۔

لیبیا میں طوفان کے سبب ہزاروں افراد کی ہلاکت کا خدشہ

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹیز کے سربراہ تمر رمضان نے بتایا کہ اس ہلاکت خیز سیلاب کی وجہ سے تقریباً دس ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کے علاوہ دیگر کئی مشرقی شہر بھی طوفان کی زد میں آ گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد "بہت زیادہ" ہو گی۔

تمر رمضان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم معلومات کے اپنے آزاد ذرائع سے یہ تصدیق کرسکتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی تعداد 10000 تک پہنچ چکی ہے۔‘‘

درنہ شہرکا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو گیا ہے
درنہ شہرکا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو گیا ہےتصویر: Jamal Alkomaty/AP Photo/picture alliance

اجتماعی تدفین

سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد کا ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا ہے۔ بوابتہ الوسط نامی جریدے کی ویب سائٹ نے منگل کے روز بتایا کہ 300 سے زائد لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ لیبیا کے وزیر صحت عثمان عبدالجلیل نے المسار ٹی وی چینل کو بتایا کہ درنہ میں بہت سے متاثرین پھنسے ہوئے تھے اور بہت سی لاشیں بکھری پڑی تھیں، ''چونکہ درنہ کے اطراف کے علاقے اس سے کٹ گئے ہیں اس لیے ہلاکتوں اور لاپتہ ہونے والے لوگوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘

مسلح دھڑوں کے تصادم سے لیبیا کا دارالحکومت طرابلس لرز اٹھا

لیبیا میں اس وقت مغرب اور مشرق میں دو حریف حکومتیں ہے اور دونوں اقتدار پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں، جس کے سبب ملک بدامنی کا شکار ہو گیا ہے۔ مشرقی بندرگاہی شہر درنہ پر اسلامی شدت پسندوں کا کنٹرول ہے۔ بین الاقوامی برادری اس کو تسلیم نہیں کرتی ۔ مغرب میں طرابلس بین الاقوامی طور تسلیم شدہ حکومت ہے۔

بین الاقوامی امداد کا سلسلہ

متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر، الجزائر، تیونس اور یورپی یونین نے فوری طور پر امدادی اشیاء بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو بچانے اور تلاش کے کاموں میں مدد دینے نیز سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اپنی ٹیمیں روانہ کی ہیں۔ جرمنی اور امریکہ سمیت متعدد مغربی ملکوں نے اس قدرتی آفت سے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

لیبیا دوبارہ سیاسی انتشار کی دلدل میں اُترتا ہوا

خیال رہے کہ لیبیا سن 2011 میں معمر قذافی کو اقتدار سے معزول اور ہلاک کرنے کے بعد سے ہی بدامنی کا شکار ہے۔ تیل سے مالامال اس ملک پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے متعدد گروپ باہم متصادم ہیں۔ غیر ملکی حکومتوں نے بھی اس تصادم کو ہوا دینے کا کام کیا ہے۔

لیبیا کے عوام معمول کی زندگی کے خواہاں

ج ا/     (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)