1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیس بک کا ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاونٹ معطل رکھنے کا فیصلہ

6 مئی 2021

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فیس بک اور انسٹاگرام اکاونٹ مزید کم از کم چھ ماہ کے لیے معطل رہے گا۔

https://p.dw.com/p/3t1R5
Weltspiegel | USA Donald Trump startet eigene Plattform
تصویر: Mandel Ngan/AFP

 ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے امریکی کیپیٹل ہل پر چھ جنوری کو دھاوا بولنے کے نتیجے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ان پر پابندی عائد کردی تھی۔

فیس بک کے نگراں بورڈ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ کمپنی ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاونٹ پر پابندی برقرار رکھے گی۔ سابق امریکی صدر نے  فیس بک کے فیصلے کو'ذلت آمیز‘ قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے غیر جانبدار نگران بورڈ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فیس بک اور انسٹا گرام پر کچھ بھی پوسٹ کرنے پر عائد کردہ پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ تاہم اس فیصلے پر چھ ماہ بعد نظر ثانی کی جائے گی۔

فیس بک نے کیا فیصلہ کیا؟

بورڈ نے چھ جنوری کو ٹرمپ حامیوں کی جانب سے امریکی کیپیٹل ہل پر قبضے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”ٹرمپ نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس کی وجہ سے تشدد کا سنگین خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔"

بورڈ نے اپنے سابقہ فیصلے پر غور و خوض اور پابندی کی مدت میں توسیع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا”خلاف ورزیوں کی سنگینی اور تشدد کے خطرے کو دیکھتے ہوئے فیس بک کی جانب سے مسٹر ٹرمپ کا اکاونٹ چھ جنوری کو معطل کرنے اور سات جنوری کو اس میں توسیع کرنے کا فیصلہ درست تھا۔"

بورڈ نے تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ ٹرمپ اس مقبول ویب سائٹس پر واپس آ سکتے ہیں۔ اس نے پابندی میں توسیع کے فیصلے پر چھ ماہ کے بعد نظر ثانی کا مشورہ دیتے ہوئے کہا”فیس بک کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی ایسے صارف پر جس کے کروڑوں چاہنے والے موجود ہوں، لا محدود مدت اور کوئی معیار مقرر کئے بغیر ہمیشہ کے لیے معطلی کی سزا مسلط کرے۔"

بورڈ کے اراکین کا کہنا تھا کہ آیا ان پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی جائے یا پھر ایک محدود مدت تک ان کا اکاونٹ معطل کیا جائے۔

بورڈ کا قیام

فیس بک نے حال ہی میں بورڈ قائم کیا ہے جس میں قانونی امور کے ماہرین، انسانی حقوق کے ماہرین اور صحافی شامل ہیں۔ کمپنی پر اس بورڈ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا لازمی ہے۔

سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے فیس بک کو یہ سوچنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا کہ وہ کمپنی کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والے عالمی رہنماوں سے کس طرح نمٹنے۔  فیس بک کمپنی کو اس بات کے لیے بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ مشکلات پیدا کرنے والے مواد کو فوری طور پر ہٹانے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ ان خطرناک پیغامات کو پھیلا بھی رہی ہے۔

فیس بک کے نائب صدر نک کلیگ کا کہنا ہے کہ کمپنی بورڈ کے فیصلے پر غور کرے گی اورجواب دے گی۔

فیک نیوز کے نقصانات

ٹرمپ کا ردعمل

ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ سن 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں گڑبڑی کی گئی ہے۔  انہوں نے ایک بیان میں کہا”اگر پست ہمت اور احمق لیڈر مچ میک کونیل نے بدعنوانی کے تمام الزامات کی جانچ کی ہوتی جو اس وقت ان کے سامنے پیش کیے گئے تھے تو صدارتی انتخابات کے نتائج یکسر مختلف ہوتے۔"

انہوں نے فیس بک، ٹوئٹر اورگوگل کی نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کے اقدام کو ”انتہائی تضحیک آمیز" قرار دیا اور اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ ”دل چھوٹا نہ کریں۔“ انہوں نے کہا کہ امریکی ووٹرز اظہار رائے پر پابندی کے اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ جنوری میں امریکی کانگریس کی عمارت پر حملے کے دوران سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے متعدد ایسی پوسٹس سامنے آئی تھیں جن میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ نومبر 2020 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات بقول ان کے ”چوری" کیے گئے ہیں۔ فیس بک نے ٹرمپ کی دو پوسٹس کو فوری طور پر ہٹا دیا تھا اور ان پر چوبیس گھنٹوں کے لیے کچھ بھی پوسٹ کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ٹوئٹر نے بعد میں یہ کہتے ہوئے ٹرمپ پر مستقل پابندی عائد کر دی تھی کہ ان کی پوسٹیں ممکنہ طور پر دوسروں کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں