1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیس بک کا نیا اسکینڈل اور اعتراف: ناقدین کو چپ کرانے کی کوشش

16 نومبر 2018

دنیا کے سب سے بڑے آن لائن نیٹ ورک فیس بک کو ایک نئے اسکینڈل کا سامنا ہے۔ فیس بک پر الزام ہے کہ اس نے تعلقات عامہ کی ایک امریکی فرم کے ساتھ ایسا معاہدہ کر رکھا تھا، جس کا مقصد اس کمپنی کے ناقدین کو بدنام کرنا تھا۔

https://p.dw.com/p/38NW0
فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگتصویر: picture-alliance/dpa/XinHua/T. Shen

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ فیس بک کی انتظامیہ نے امریکا کی ایک پبلک ریلیشنز فرم کی خدمات اس لیے حاصل کیں کہ وہ اس سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ناقدین کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں ناقابل اعتماد ثابت کرنے کی کوشش کرے۔

Berlin Eröffnung Europäische Roma Institut für Kunst und Kultur
ارب پتی سرمایہ کار جارج سوروستصویر: Getty Images/S. Gallup

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس فرم کو کی جانے والی مالی ادائیگیوں کے بعد ہی غیر محسوس طریقے سے عالمی رائے عامہ کی توجہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم سرمایہ کار جارج سوروس کی طرف مبذول کرائی گئی تھی۔

اسی دوران فیس بک نے یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ ’ڈیفائنرز‘ (Definers) نامی اس فرم کے ساتھ اشتراک عمل سے اس امر کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ عملی طور پر صحافیوں کو ترغیب دے کہ وہ ’فریڈم فرام فیس بک‘ کو ملنے والی مالی وسائل کے ذرائع کی چھان بین کریں۔

فریڈم فرام فیس بک یا ’فیس بک سے آزادی‘ نامی تنظیم کی کوشش یہ تھی کہ فیس بک جیسے سوشل میڈیا نیٹ ورک کو عام انسانوں کی زندگیوں کو اپنے حصار میں لے لینے سے روکنے کی کوششیں کی جانا چاہییں۔ Freedom from Facebook اس آن لائن نیٹ ورک کے خلاف سرگرم ایک تنظیم ہے اور ’ڈیفائنرز‘ کی خدمات حاصل کرتے ہوئے فیس بک نے کوشش کی تھی کہ اس تنظیم اور جارج سوروس جیسی شخصیات کو بدنام کیا جائے۔

 نیو یارک ٹائمز کے مطابق فیس بک کی انتظامیہ نے اس بارے میں اعتراف کے بعد اس امریکی پبلک ریلیشنز فرم کے ساتھ اپنا معاہدہ بھی ختم کر دیا ہے۔

اس بارے میں فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ خود انہیں بھی اس معاملے کا علم ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی ہوا تھا۔

اس موضوع پر صحافیوں کے ساتھ ایک ٹیلی فون کانفرنس میں زکر برگ نے کہا، ’’فیس بک کی کمیونیکیشن ٹیم میں سے کسی نے اس لابی ایجنسی کی خدمات حاصل کی ہوں گی۔‘‘

یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیس بک کے کاروباری امور کی نگران خاتون عہدیدار شیرل سینڈ برگ، جو عام طور پر اس کمپنی سے متعلق سیاسی معاملات پر بھی زیادہ توجہ دیتی ہیں، کو بھی ’ڈیفائنرز‘ کے ساتھ معاہدے کا علم نہیں تھا۔

اس پریس کانفرنس میں مارک زکربرگ نے یہ بھی کہا، ’’اس کے باوجود کہ کئی دوسرے ادارے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں، میرے لیے فیس بک کی سربراہی کا یہ تو کوئی طریقہ ہے ہی نہیں کہ اس طرح کے راستے استعمال کیے جائیں۔‘‘

مارک زکربرگ نے اپنے ناقدین کی طرف سے خود پر اس وجہ سے کی جانے والی تنقید کو بھی مسترد کر دیا کہ انہیں یہ علم کیوں نہیں تھا کہ ان کے ادارے میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے زکربرگ نے کہا، ’’کسی ایسے ادارے میں جو اتنا بڑا ہو جتنا کہ فیس بک، ایسا تو ہمیشہ دیکھنے میں آ سکتا ہے کہ کارکنوں کی طرف سے ایسے فیصلے یا اقدامات کیے جائیں، جن کا خود کمپنی سربراہ کے طور پر انہیں بھی علم نہ ہو۔‘‘

م م / ع ت / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں