1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

غیر قانونی پاک ایران تجارت پر پابندیاں، سرحدی آبادی پریشان

27 ستمبر 2023

ماہرین کے مطابق ایرانی سرحد سے غیر قانونی طور پر اشیاء کی درآمد کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں پاکستانی معیشت میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ تاہم بلوچستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مہنگے داموں مقامی اشیاء خریدنے سے قاصر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Wrc5
Iran  Grundstücke Protest Balochistan
تصویر: Abdul Ghani Kakar

پاکستان اوراس کے ہمسایہ ملک ایران کے مابین دوطرفہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔ پاکستان اپنے اس پڑوسی کو چاول اور دیگر مصنوعات فروخت کرتا ہے جبکہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں رہنے والے لوگ سستے داموں ایرانی خوراک، ایندھن اور دیگر سامان خرید کرپیسوں کی بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں مقیم ایک تاجر اور سیاست دان رحیم ظفر کے مطابق ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں "بارٹر سسٹم" یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء کے تبادلے کی بھی روایت ہے۔ رحیم ظفر کے مطابق ایرانی سیمنٹ، اسٹیل، پھلوں، خشک دودھ، کوکنگ آئل اور دیگر کئی اشیاء کا پاکستانی چاولوں سے تبادلے کا سلسلہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔

Benzinschmuggel an der Grenze zwischen Iran und Pakistan
پاکستانی حکومت نے حال ہی میں ایرانی پٹرول کی غیر قانونی تجارت کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا ہےتصویر: Instagram.com/mototourist

انہوں نے کہا، "ماضی میں سرحدیں کھلی ہوتی تھیں اور لوگ صرف اشیا کے تبادلے کے لیے ایرانی علاقے میں جا سکتے تھے۔" لیکن ظفر کے مطابق اب حکام نے دونوں ممالک کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد کے زیادہ تر حصے پر ایک حفاظتی باڑ لگا دی ہے۔ جس نے اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

ان کے بقول ابھی حال ہی میں پاکستانی حکام نے ایران کی طرف سے اشیاء درآمد کرنے والے تاجروں پر بھی پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں۔

بندش کے پیچھے کیا ہے؟

پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے اس ماہ کے شروع میں غیر رسمی زرمبادلہ کی منڈی پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ایک آپریشن کا اعلان کیا تھا۔ اس آپریشن کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ کرنسی ڈیلرز نے بتایا کہ چند ہفتے قبل بلیک مارکیٹ میں دھندہ کرنے والوں پر چھاپوں کے بعد سے پاکستان کے انٹربینک نیٹ ورک اور کھلی منڈیوں میں دسیوں ملین ڈالر واپس آئے ہیں۔

پاکستانی حکام نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر غیر رسمی تجارت روکنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس میں بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں رہنے والے بلوچ لوگوں اور ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں سرحد پار رہنے والے ان کے رشتہ داروں کے درمیان سامان کا تبادلہ بھی شامل ہے۔

Pakistan Armee Militär Asim Munir
پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر تصویر: Inter-Services Public Relation Department/AP Photo/AP Photo/picture alliance

تاجروں اور سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایران سے تیل، سیمنٹ، ڈیزل، پھل، سبزیاں، کوکنگ آئل، خشک دودھ، بسکٹ، کھجوریں اور دیگر اجناس درآمد کرنے والے پاکستانی تاجروں کے گرد شکنجہ کسا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے نہ صرف بعض ایرانی اشیاء کی قلت پیدا ہوئی بلکہ بہت سی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ آسمان چھونے کو پہنچ گیا۔

قوت خرید کی کمی

بلوچستان پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے اور اس طرح یہاں کی آبادی خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی حاجت پوری کرنے کے لیے ہمسایہ ملک ایران پر انحصار کرتے ہیں۔ بلوچستان کے شہر قلات میں مقیم  ایک کارکن منصور بلوچ بنیادی اشیا کی قیمتوں میں فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''حکومت کی جانب سے اس کریک ڈاؤن کے آغاز سے پہلے سیمنٹ کے 50 کلو تھیلے کی قیمت صرف 500 پاکستانی روپے تھی جبکہ یہی چیز پاکستانی مینوفیکچررز 1,280 روپے میں فروخت کر رہے تھے۔‘‘

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر فدا حسین دشتی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانی اشیاء کی قیمتیں بلوچستان کے لوگوں اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے قابل برداشت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی کوکنگ آئل کی ایک لیٹر قیمت 200 روپے تک  ہو سکتی ہے جبکہ پاکستانی کوکنگ آئل 350 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔

خوراک کی کمی

گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر غلام حسین نے کہا کہ پاکستانی  حکام ماضی کی نسبت اب لوگوں کو آزادی سے ایرانی اشیاء خریدنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکام تاجروں کو ہراساں کرتے ہیں اور ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ پاکستان سے سامان خریدیں۔

حسین نے کہا، ''میرے شہر کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی اس سرحدی تجارت سے وابستہ ہے، جن کی روزی روٹی اس کریک ڈاؤن سے متاثر ہوئی ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے نتیجے میں  ان کے علاقے میں خوراک کی قلت ہے  اور دوکانوں میں سامان رکھنے کی جگہیں خالی ہیں۔

Pakistans Importe bedroht, da die Devisenreserven ein Achtjahrestief erreichten
ایران سے ملحق پاکستان کے سرحدی علاقوں میں لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے مہنگے داموں مقامی اشیا خریدنا بہت مشکل ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

لیکن کچھ لوگوں کی نظر میں یہ کریک ڈاؤن  پاکستانی معیشت کو سستے ایرانی سامان سے بچانے کا صحیح طریقہ ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ایک تجزیہ کار ڈاکٹر فرحت آصف نے کہا کہ زیادہ سستی ایرانی اشیا اکثر دوسرے پاکستانی شہروں میں پہنچ جاتی ہیں اور وہاں فروخت ہوتی ہیں، جس سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر خالد مگسی نے کہا کہ تاجر بہت زیادہ ایرانی اشیا درآمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فروخت کنندگان مقررہ مقدار سے تجاوز کر رہے ہیں اور یہ کہ اس عمل کو روکنا چاہیے۔ مگسی نے کہا، ''میرے خیال میں حکومت اشیاء کی قلت دور کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرے گی۔‘‘

بلوچستان حکومت کے ترجمان جان اچکزئی نے سرحدی تجارت کے بند ہونے کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ حکام محض پیٹرول، ڈیزل اور کرنسی کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے  اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔

اچکزئی کا مزید کہنا تھا، "روزی کا بہانہ اسمگلنگ کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے قانونی تجارت کی حوصلہ افزائی کے لیے سرحدی مارکیٹیں قائم کیں اور ایسی مزید مارکیٹوں کا قیام زیر غور ہے تاکہ غیر قانونی طور پر کی جانے والی اشیا کی تجارت کو ختم کیا جا سکے۔‘‘ 

ایس خان⁄ اسلام آباد (ش ر⁄ ک م)

پاکستان ایران سرحد پر تیل کی خطرناک اسمگلنگ