1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’غلطیوں کے بادشاہ‘، برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ

افسر اعوان14 جولائی 2016

بریگزٹ کے لیے مہم چلانے والے بورس جانسن کو نئی برطانوی حکومت میں ملک کا نیا وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ ان کو اس عہدے پر فائز کیے جانے پر یورپی میڈیا کی طرف سے حیرانی کا اور بعض جگہ ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JOwE
تصویر: Reuters/A. Matthews

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نئی وزیراعظم ٹریزا مے نے حیران کُن طور پر لندن کے سابق میئر بورس جانسن کو جنہیں ان کی عجیب و غریب سیاسی حرکات کی وجہ سے جانا جاتا ہے، یورپ سے الگ ہونے کے لیے برطانیہ کا اعلیٰ ترین سفارت کار یعنی وزیر خارجہ مقرر کر دیا ہے۔

جرمن روزنامے ’ڈی ویلٹ‘ کے مطابق بہت سے لوگوں نے اس ’دھماکا خیز‘ تقرری کو ایک مذاق سمجھا۔ اخبار نے جانسن کے ان بیانات کا حوالہ بھی دیا جن میں انہوں نے یورپی یونین کو اڈولف ہٹلر سے تشبیہ دی تھی اور ہیلری کلنٹن کو ’دماغی امراض کے ہسپتال کی ایک ایسی نرس جو دوسروں کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرے‘ کہا تھا۔

اخبار مزید لکھتا ہے، ’’یہ حقیقت کے ٹریزا مے نے ۔۔۔ دیگر تمام لوگوں میں سے اس غیر سفارتی، ناقابل اعتبار اور غیر وفادار فرد کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا ہے، ابتدائی طور پر مضحکہ خیز لگتی ہے۔‘‘

فرانس کے اخبار لبریشن نے اپنے پڑھنے والوں کو یاد دلایا کہ بورس جانسن ’کبھی بھی وزارت کے عہدے پر فائز نہیں رہے اور چند دن قبل ہی وہ ٹوری پارٹی کی سربراہی کی دوڑ سے عجیب و غریب انداز سے الگ ہو گئے تھے‘۔

ڈیئر اشپیگل لکھتا ہے کہ جانسن ’خود بھی اس تقرری پر حیران‘ دکھائی دیے
ڈیئر اشپیگل لکھتا ہے کہ جانسن ’خود بھی اس تقرری پر حیران‘ دکھائی دیےتصویر: Getty Images/D. Kitwood

جرمن نیوز میگزین ’ڈئیر اشپیگل‘ نے اپنی آن لائن کمنٹری کی سُرخی ’ہاؤس آف کارڈز اِن بریٹن‘ جمائی ہے۔ اس کمنٹری میں کہا گیا ہے، ’’بورس جانسن، بریگزٹ کے بادشاہ کو اب وزیر خارجہ کے عہدے سے نوازا گیا ہے، جنہوں نے ووٹ کے بعد اپنا سر ریت میں دھنسا لیا تھا۔‘‘

لندن سے لکھے گئے اس کے مرکزی آرٹیکل میں ڈیئر اشپیگل لکھتا ہے کہ جانسن ’خود بھی اس پر حیران‘ دکھائی دیے کیونکہ ووٹنگ کے بعد انہیں بڑے پیمانے پر ’برطانیہ کا سب سے زیادہ پریشان شخص‘ قرار دیا جا رہا تھا۔

آرٹیکل میں مزید لکھا گیا ہے کہ مے نے جانسن کو یہ عہدہ دے کر ’پارٹی کے دلجوئی اور ووٹرز کو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔ کہ وہ ریفرنڈم کے نتائج کو سنجیدگی سے لیتی ہیں۔‘

یاد رہے کہ ٹریزا مے برطانیہ کے یورپی یونین میں ہی رہنے کے حق میں تھیں۔ تاہم وزیراعظم بننے سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی عوام نے اب یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، لہٰذا اس پر عمل ہونا چاہیے۔