1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتاسرائیل

غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں تیزی

28 اپریل 2024

غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کسی ممکنہ ڈیل کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے جبکہ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پٹی میں مزید حملے کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4fGy4
Israel Palestinians
تل ابیب میں اسرائیلی مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یرغمالی رہا کرائے جائیںتصویر: Ohad Zwigenberg/AP/picture alliance

غزہ پٹی میں حماس جنگجوؤں کی قید میں موجود دو یرغمالیوں کی ایک نئی ویڈیو منظر عام  پرآنے کے بعد اسرائیل میں بھی نئے مظاہروں کا سلسلہ دیکھا گیا ہے، جہاں اسرائیلیوں نے حکومت سے اپنا مطالبہ دہرایا ہے کہ وہ ان کے پیاروں کی بحفاظت واپسی کا انتظام کرے۔

دوسری طرف عالمی برادری جنگ سے تباہ حال اور انسانی بحران کا شکار غزہ پٹی میں سیز فائر پر زور دے رہی ہے۔ عالمی رہنماؤں نے خبردار بھی کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی غزہ پٹی کے رفح شہر میں زمینی کارروائی وہاں شہریوں کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔

دریں اثنا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی امریکہ سے اپیل کی ہے کہ رفح شہر میں اسرائیل فورسز کی کسی زمینی کارروائی کو روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہوا تو یہ 'فلسطینی عوام کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی تباہی ہو گی‘۔ ایسا اندیشہ ہے کہ اسرائیلی فورسز رفح شہر میں زمینی کارروائی کر سکتی ہیں۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں گلوبل اکنامک سمٹ کے موقع پر محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کا قریبی اتحادی اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والا امریکہ ہی اسرائیل کو 'جرائم کے ارتکاب‘ سے روک سکتا ہے۔

غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے برطانوی فوج خدمات فراہم کر سکتی ہے، رپورٹ

غزہ کے ہسپتالوں میں ہلاکتیں، اقوام متحدہ کا تفتیش کا مطالبہ

جنگ بندی کی شرائط کیا ہیں؟

امن مذاکرات کے ابتدائی ادوار میں حماس نے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل مستقل جنگ بندی پر حامی بھرے۔ تاہم اسرائیلی حکومت اس سے انکار کرتی رہی تھی۔

اسرائیل جنگ کا متمنی نہیں، اسرائیلی صدر

تاہم اب ایسی اطلاعات ہیں کہ اگر حماس تمام تر یرغمالی رہا کر دے تو اسرائیلی حکومت حماس کے ساتھ پائیدار امن کے حوالے سے مذاکرات شروع کر سکتی ہے۔

ممکنہ طور پر انہی شرائط پر اسرائیل اور حماس کے ماببن بات چیت کا نیا سلسلہ جاری ہے، جس کی ثالثی مصر، قطر اور امریکہ کر رہے ہیں۔

کیا جنگ بندی کے لیے اسرائیل تیار ہے؟

امریکی ویب سائٹ 'ایکسیوس'  کی ایک رپورٹ میں اس خبر کے حوالے سے کہا گیا ہے  کہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والے اس تنازعے میں پہلی بار اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائیاں ترک کر سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔

حماس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے اس بارے میں گفتگو کے دوران بتایا گیا کہ اسرائیل کی طرف سے تجویز کردہ ڈیل کے بارے میں پیر کے دن حتمی اعلان کیا جائے گا۔

اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ مستعفی

غزہ پر اسرائیلی حملے جاری، ہلاکتوں کی تعداد اب چونتیس ہزار

حماس نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کی طرف سے انہیں ایک مسودہ موصول ہوا ہے، جس پر حماس کی قیادت غور کر رہی ہے۔ اسی اثناء میں ایک مصری وفد نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا ہے، جس میں اس مجوزہ ڈیل کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔

مصر کے علاوہ قطر اور امریکہ کی کوشش ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین کوئی ڈیل ہو جائے۔ یاد رہے کہ نومبر میں ان دونوں فریقین کے مابین ایک ہفتے جنگ بندی ہوئی تھی، جس کے تحت حماس نے 80 یرغمالیوں کو رہا کر دیا تھا۔

اس دوران غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچایا گیا تھا جبکہ اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا تھا۔ یہ ڈٰیل بھی قطر، مصر اور امریکہ کی کوششوں سے ہی ممکن ہوئی تھی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب بھی غالبا 129 یرغمالی حماس کی قید میں ہیں۔ سات اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے تقریبا 1170 افراد کو ہلاک کیا تھا تو ساتھ ہی یہ عسکریت پسند دو سو چالیس افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی لے گئے تھے۔

حماس کی اس دہشت گردانہ کارروائی کے بعد اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھالنے والی جنگجو تنظیم حماس کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ تاہم گزشتہ چھ ماہ کے دوران کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے دوران غزہ میں شہری ہلاکتوں کی وجہ سے اسرائیل پر عالمی دباؤ بڑھا ہی ہے۔

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے ہلاک شدگان فلسطینیوں کی تعداد چونتیس ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔

امریکی اسٹوڈنٹس کا احتجاج جاری

اسرائیل اور حماس کے مابین جاری مسلح تنازعے کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ پولیس کے کریک ڈاؤن کے دوران مزید سینکڑوں اسٹوڈنٹس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس کی طرف سے کریک ڈاؤن کے باوجود ہفتے کے دن امریکی اسٹوڈنٹس نے کہا کہ وہ اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کچھ واقعات میں پولیس اور اسٹوڈنٹس کے مابین تصادم بھی ہوا۔

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ

عالمی رہنماؤں کا اسرائیل اور ایران سے تحمل کا مطالبہ

ان اسٹوڈنٹس کا مطالبہ ہے کہ تعلیمی ادارے ایسی کمپنیوں اور افراد کا بائیکاٹ کریں، جن کے اسرائیل سے روابط ہیں۔

امریکی یونیورسٹیوں کے متعدد فیکلٹی ممبران نے یونیورسٹیوں کے احاطے میں پولیس اہلکاروں کو داخل ہونے کی اجازت پر کڑی تنقید کی ہے۔ واضح رہے کہ متعدد یونیورسٹیوں کے اعلیٰ حکام نے اسٹوڈنٹس کے دھرنے ختم کرانے کی خاطر پولیس کو ایکشن لینے کی اجازت دے دی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی کے نیو یارک کیمپس کے اسٹوڈنٹس نے کئی ماہ قبل یہ احتجاج شروع کیا تھا۔ ان طالب علموں نے کیمپس میں خیمے لگا کر دھرنا دینا شروع کیا تھا۔ تاہم ان مظاہروں میں اس وقت شدت آئی، جب گزشتہ ہفتے حکام نے پولیس کو کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

امریکہ کی طرح فرانس، برطانیہ، جرمنی اور متعدد دیگر یورپی ممالک میں بھی اسی طرح کے مظاہرے کیے گئے ہیں۔

ع ب/ م ا / (روئٹرز، اے ایف پی ،اے پی)

غزہ میں قحط اور بھوک، ’جرمنی خاموش نہیں رہ سکتا‘