1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتافریقہ

مہنگائی، غریبوں کا فاقہ، سرمایہ کار مزید کمانے کی کوشش میں

5 جون 2022

روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی سے غریبوں کے فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔ لیکن سرمایہ کار خوب منافع کما رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4CCsu
Iran | Steigende Lebensmittelpreise
تصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

یوکرین کی جنگ چھڑتے ہی روزمرہ کے استعمال کی چیزوں پر مہنگائی چھانا شروع ہو گئی۔ خاص طور سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں دیکھتے دیکھتے اس قدر اضافہ ہوا کہ دنیا کے غریب طبقے کے لیے جیتے جی مرنے کی نوبت آ چُکی ہے۔ یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رُکا۔ کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ صارفین کے لیے قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ دنیا میں خوراک کی قلت کا سبب بن چُکا ہے۔ غریب انسانوں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ

دنیا بھر میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں یکسر تبدیلیاں آئیں  اور زندگی کی معمولات پر گہرے اثرات کورونا کی وبا نے مرتب کیے وہاں اس وبا کے پھیلاؤ کے آغاز سے ہی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کی دستیابی میں رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی مہلک بیماری کووڈ انیس کی وجہ سے عالمی سپلائی چین میں خلل پیدا ہوا۔ نتجہ یہ ہوا کہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور خوراک کی قلت پیدا ہو گئی۔ ایسے میں صارفین کی مانگ میں اضافہ اور سپلائی کا بندوبست کرنے والوں کے لیے اپنی خدمات کی مُنہ مانگی قیمت وصول کرنے کا موقع بھی میسر آ گیا۔

Afghanistan | Bäckerei in Kabul spendet Brot
افغانستان کا منظرتصویر: Ali Khara/REUTERS

دنیا ابھی کورونا کے اثرات سے باہر نکلنا شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ روس اور یوکرین کی جنگ چھڑ گئی۔ اس سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا اور 'فوڈ  شورٹیج‘ یا غذائی قلت پیدا ہو گئی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس اور یوکرین دونوں ممالک گندم اور سورج مکھی کے تیل جیسی زرعی اجناس کے عالمی سپلائرز ہیں۔

جرمنی: ایک ماہ کے اندر افراطِ زر کی شرح بلند ترین سطح پر

افریقی ممالک کی ابتر صورتحال

یوگینڈا میں گندم اور ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس کے سبب روٹی جیسی بنیادی غذائی ضروریات ایک عام شہری کی خریدنے کی صلاحیت سے تقریباً باہر ہیں۔ اس کی قیمت غریبوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چُکی ہے۔ یہ کہنا ہے غیر سرکاری اور غیر منافع بخش تنظیم 'ہنگر پروجیکٹ‘ کی مینیجر انا سلیٹری کا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’مالاوی میں، ہماری ٹیمیں رپورٹ کر رہی ہیں کہ مکئی کے دانے، سویابین اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، کچھ جگہوں پر 50 فیصد سے بھی زیادہ۔ قیمتوں میں اضافہ لوگوں کے لیے ان اہم غذائی اشیاء تک رسائی مشکل بنا رہا ہے۔‘‘ 

گزشتہ برس لاکھوں مزید لوگوں کو بھوک سے دو چار ہونا پڑا، اقوام متحدہ

مہنگائی کا فائدہ کون اُٹھا رہا ہے؟

خوراک اور دیگر اشیاء کی زیادہ مانگ سے پیسہ کمانے کی کوشش کرنے والے سرمایہ کار قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر رہے ہیں اور اس رجحان میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ رواں سال فروری میں یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد کوموڈٹیز یا اجناس سے منسلک '' ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز‘‘ کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ دراصل ایک قسم کا سرمایہ کاری فنڈ ہے جو عوام کے لیے کھلا ہے۔ اس سال اپریل کے ماہ تک سرمایہ کار اس میں 1.2بلین ڈالر دو بڑے زرعی فنڈز میں لگا چُکے تھے۔ اس کے مقابلے میں ایک سال قبل یعنی 2021ء میں اس فنڈ میں 197 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ یہ اعداد و شمار 'انویسٹیگیٹیو جرنلزم‘  کرنے والوں کی ایک این جی او ''لائٹ ہاؤس‘‘ نے اپنی تحقیق کے بعد ترتیب دیے تھے۔

Malawi Erschöpfter Junge auf Getreidesack
مالاوی میں بھوک انتہا کو پہنچ چُکی ہے۔تصویر: Erico Waga /dpa/picture alliance

نیوز ویب سائٹ دی وائر کے مطابق، پیرس کی مِلنگ گندم مارکیٹ، جو یورپ کے لیے بینچ مارک ہے، میں بھی سٹہ بازوں کے شیئرز میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یعنی ان سرمایہ کاروں کا جن کا بنیادی مقصد منافع کمانا تھا۔ انہوں نے گندم کے مستقبل کے کانٹریکٹس یا ٹھیکے کے معاہدے خریدنے شروع کردیے ہیں۔ ایسے تاجر جو خود اجناس خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اجناس خرید کر اسٹاک کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ بریڈ یا روٹی کے کارخانوں کو گندم فراہم کر کے خوب کمائیں۔

اُدھر شکا گو بورڈ آف ٹریڈ ، جو دنیا کی معروف 'فیوچر ایکسچینج‘ کمپنی ہے، میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جرمن شہر بون کی یونیورسٹی کے 'سینٹر فار ڈیویلپمنٹ ریسرچ‘ کی تحقیق سے بھی مستقبل میں گندم اور مکئی جیسے اناج کے بزنس کی ایسی ہی  صورتحال کا انکشاف ہوا ہے۔

دنیا کی غریب ترین قوم ’یمنی‘ کو دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، ریڈ کراس

ماہرین کے مطابق تاجر برادری غیر یقینی کی صورتحال کے اس دور میں 'ٹک اسٹاک یا کریپٹو کرنسی‘ جیسی خطرناک سرمایہ کاری سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں اور یہ محفوظ شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں جیسے کہ خوراک اور تیل اور کھاد جیسی اشیاء کی تجارت پر۔ 'فوڈ کوموڈیٹیز‘ مثال کے طور پر گندم، مکئی، چاول وغیرہ کے لیے بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ اشیاء مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال سے برُی طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔

ک م /   ب ج) پلڈسن کرسٹی(