1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کے لانگ مارچ کا انجام کیسا ہو سکتا ہے؟

2 نومبر 2022

پاکستان میں بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں موجودہ لانگ مارچ کے نتیجے میں عمران خان کے لیے اپنے مطالبات منوا لینا آسان نہیں ہوگا جبکہ دوسری طرف عوامی حمایت کی حامل تحریک انصاف کو نظر انداز کرنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4IyKl
Pakistan's former Prime Minister Imran Khan, center holds a national flag, and gestures to his supporters at a rally in Lahore, Pakistan, Friday, Oct. 28 2022.
عمران خان نے اپنی پارٹی کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز جمعہ اٹھائیس اکتوبر کو لاہور سے کیا تھاتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

اس تناظر میں ملک کے وسیع تر مفاد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں پر مشتمل موجودہ وفاقی حکومت اور عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف دونوں کو ایک سیاسی حل کی طرف ہی آنا ہو گا۔

لانگ مارچ کا انجام، تین ممکنہ منظرنامے

سینیئر صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لانگ مارچ کا بیک چینل مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں پر امن انجام ہو سکتا ہے۔ دوسری آپشن میں اس کو طاقت کے استعمال سے سختی سے روکا بھی جا سکتا ہے اور تیسرا امکان یہ ہے کہ عمران خان لانگ مارچ کے ڈیڑھ دو لاکھ شرکاء کو لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں اور سارا نظام عملی طور پر معطل ہو کر رہ جائے۔ ''اس کے علاوہ ایک آپشن عدالتی مداخلت کا بھی ہے، جس کے ذریعے لانگ مارچ کو روکا بھی جا سکتا ہے۔ ‘‘

کیا لانگ مارچ کامیاب رہے گا؟

ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ کو طول دیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے اعلان کے مطابق یہ لانگ مارچ اب چار نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ لانگ مارچ آٹھ نومبر یا اس سے بھی بعد کسی دن اسلام آباد پہنچے۔ ان کے بقول اس تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک عمران خان کو اس لانگ مارچ کے نتیجے میں اپنے اہداف حاصل ہو سکنے کا یقین نہیں ہے۔

لانگ مارچ کا تیسرا دن: بوٹ پالش کرنے والوں سے بات نہیں کرتا، عمران خان

''پچھلے لانگ مارچ میں تو اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کے ساتھ تھی۔ لیکن طویل دھرنے سے ان کو کیا ملا۔ اس مرتبہ بھی ان کے لیے اپنے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر وہ پچاس ہزار لوگوں کے ساتھ آ کر اسلام آباد پر قبضہ بھی کر لیں، تو اس سے صورت حال بہتر نہیں بلکہ خراب ہی ہو گی۔‘‘

پاکستان کی ممتاز ماہر سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد کہتی ہیں کہ پاکستان میں لانگ مارچ کی تاریخ پرانی ہے لیکن یہ لانگ مارچ مختلف حکمت عملی کے ساتھ مختلف حالات میں ہو رہا ہے۔ اس مارچ کو طول دے کر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔

عمران خان کے کنٹینر تلے آ کر خاتون صحافی ہلاک ہو گئیں

ان کے مطابق بدقسمتی سے دونوں فریق انتہائی نوعیت کی پوزیشنیں لیے ہوئے ہیں، ''اگر ہم اس لانگ مارچ کا سیاسی انجام چاہتے ہیں، تو ہمیں سیاسی مذاکرات کی طرف آنا ہو گا، ورنہ بڑھتے ہوئے تناؤ کا ماحول اس لانگ مارچ کو کسی ناخوشگوار انجام سے دوچار بھی کر سکتا ہے۔‘‘

اس کے برعکس عامر خاکوانی کہتے  ہیں کہ عمران خان کے لیے اب واپسی مشکل ہے۔ لانگ مارچ سے پسپائی کی صورت میں انہیں اس کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے گی جبکہ نومبر کے سرد موسم میں مظاہرین کا زیادہ دیر تک اسلام آباد میں کسی دھرنے پر بیٹھے رہنا بھی بہت مشکل ہو گا۔ اس لیے اس بحران کا کوئی درمیانی راستہ ہی نکالنا ہو گا۔

لانگ مارچ کا مقصد کیا؟

بظاہر تو یہ لانگ مارچ پاکستان کی 'حقیقی آزادی‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے اور عمران خان کی تقریروں سے لگتا ہے کہ اس لانگ مارچ کا مقصد موجودہ پاکستانی حکومت کو جلد منصفانہ اور آزادانہ الیکشن کرانے پر مجبور کرنا ہے۔

لیکن امتیاز عالم کہتے ہیں کہ اصل میں یہ لانگ مارچ نئے آرمی چیف کی تقرری کے عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول یہ بات عمران خان بھی جانتے ہیں کہ فوری الیکشن کا تو کوئی امکان نہیں۔ الیکشن یا تو اپریل میں ہو سکتے ہیں اور اگر مردم شماری کی گئی، تو پھر اگلے الیکشن اکتوبر تک بھی جا سکتے ہیں۔

مارچ اور احتجاج: سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے عمل کے آغاز کے دن اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لیے لانگ مارچ کے شرکاء کے اسلام آباد میں داخلے کو مؤخر کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد کہتی ہیں کہ پاکستان میں سری لنکا جیسی صورت حال پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بقول، ''یہاں معاشی ابتری اس درجے تک نہیں پہنچی۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی اپنی حد تک کوششیں کر رہی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین سے بھی کچھ اقتصادی فوائد کی امیدیں لگائی جا رہی ہیں۔‘‘

عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ بظاہر پاکستان میں مہنگائی کی صورت حال، حکومت کی ناقص کارکردگی، پٹرول کی قیمتوں میں پچھلے دنوں ہونے والے اضافے اور گیس کی قلت جیسے مسائل کی وجہ سے عوام غصے میں ہیں۔ اگر اس مسئلے کو بڑی حکمت سے حل نہ کیا گیا تو حالات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔

اب ہونا کیا چاہیے؟

عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ حالیہ ضمنی انتخابات جیتنے والی اور ملک کے تمام صوبوں میں نمائندگی رکھنے والی مقبول قومی سیاسی جماعت کونظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کو 'فیس سیونگ‘ ملنا چاہیے۔ ان کے بقول اس سلسلے میں ٹکراؤ کو روکنے اور ملک کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے اداروں کو 'نرم مداخلت‘ کرنا چاہیے۔

لانگ مارچ کا آغاز اور عمران خان کی فوجی افسران پر کڑی تنقید

خاکوانی کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ کی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد مناسب ہو گا کہ اس سلسلے میں عدالتیں اپنا کردار ادا کریں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی اور ملک کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو عمران خان کو کسی قسم کی 'فیس سیونگ‘ دینے سے منع کر دیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف: لانگ مارچ کی گھڑی آن پہنچی

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ عمران خان کو واپس اسمبلی میں جانا چاہیے اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن کے حوالے سے اصلاحات کروانا چاہییں۔ اس کے علاوہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں حصہ نہ لینے کی پیشکش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری قانون سازی بھی کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر ارم خالد کہتی ہیں کہ سب سے پہلے تو دونوں دھڑوں کوعوام کو مشتعل کرنے والے اپنے بہت تلخ لب و لہجے کو بدلنا چاہیے۔ ان کی رائے میں سیاسی اختلافات سڑکوں پر مارچ اور دھرنوں کے بجائے پارلیمانی ایوانوں میں بیٹھ کر طے کیا جانا چاہییں، ''اگر ہر کوئی صرف پاکستان کے قومی مفاد کو ہی مقدم رکھے، تو سبھی مسئلے حل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘