1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمر رسیدہ خواتین کا سماجی تحفظ ایک خواب کیوں؟

1 مارچ 2024

افرادی قوت کی عمر بڑھنے سے عمر کی بنا پر تعصب بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ خواتین کی عمر ڈھلنے کے ساتھ ہی انہیں نہ صرف کم جاذب نظر تصور کیا جاتا ہے بلکہ ان کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4d3ms
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

دنیا بھر میں عوامی و سیاسی زندگی میں خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر گہرے آثار ملتے ہیں۔ مگر عمر کی بنا پر تعصب کا معاملہ جداگانہ نوعیت کا ہے۔ جنوبی ایشیا میں عمر رسیدہ خواتین کے حقوق اور سماجی تحفظ کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔

دراصل قیام پاکستان سے ہی ایک محاورہ زبان زد عام ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں مرد اخلاقی اتھارٹی اور سماجی استحقاق کے شعبوں پر براجمان ہیں۔

اس محاورہ کو کس نے وائرل کیا معلوم نہیں مگر عمررسیدہ خواتین ان دقیانوسی تصورات سے سب سے ذیادہ منفی طور پر متاثر ہوتی ہیں۔

پاکستانی معاشرہ میں اگر آپ اپنے سوشل سرکل میں بڑی عمر کے دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص خواتین، تو آپ کی کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ ہمارے سماج میں لوگ جوانی اور خوبصورتی کی پوجا کرتے ہیں۔ عمر رسیدہ خواتین کے مسائل سنگین اور کثیر الجہتی ہیں۔

عمومی طور پر لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ عمر رسیدہ خواتین کے مسائل درحقیقت کیا ہیں؟ یہاں مار کٹائی، تشدد کی بات کی جاتی ہے مگر لوگوں کو ادراک نہیں کہ تشدد صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ دوران ملازمت یکساں سلوک روا نہ رکھنا، انہیں سوسائٹی میں نظر انداز کرنا بھی نفسیاتی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔

آج کے سخت مقابلے والے دور میں بڑی عمر کی خواتین کے لیے نوکری حاصل کرنا اور اسے بچائے رکھنا بہت ہی مشکل ٹاسک ہو گیا ہے۔ اسی نوکری پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی غرض سے کی جانے والی تگ ودو بعض افراد کو ہضم نہیں ہوتی اور شروع ہوجاتی ہے"آفس پالیٹکس"۔

جاب پلیس پر اول تو ڈھلتی عمر کی خاتون کو دیکھ کر اس کے ہیئر سٹائل، ہیئر کلر، ہیئر کٹنگ، جوتے، بیگ کولیکشن، لپ اسٹک اور لباس پر چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ان پر زبردستی سنجیدگی کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے۔ جہاں عورت نے 40 کی حد عبور کی، اس ٹرننگ پوائنٹ پہ معاشرے کے خاص سلوک کا آغاز ہوجاتا ہے۔

بہت بار ایسا ہوا ہے کہ عمر رسیدہ خواتین آفس میں اپنے کام اور اس کام کے لیے مل رہی تنخواہ سے تو مطمئن ہوتی ہیں لیکن وہاں چل رہی سیاست سے اتنا دلبرداشتہ ہوجاتی ہیں کہ نئی نوکری تلاش کرنے لگتی ہیں۔ ذہنی سکون کی خاطر ایسی بہت سی خواتین کم ترین اجرت والی نوکریاں تلاش کرتی ہیں جنہیں بہتر فوائد کے ساتھ کام مل سکتا ہے۔

آفس اسٹاف بسا اوقات ایجڈ خواتین کو کم علم اور ٹیکنالوجی میں اپ ٹو ڈیٹ نہیں سمجھتے اور انہیں کنفیوژ کرنے کی غرض سے بار بار ایسا تاثر پیش کیا جاتا ہے۔ حتی کہ چالیس بیالیس سال کی عمر کی خواتین بھی خود یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اب نیا کام نہیں سیکھ سکتیں اور سیکھنے کا رسک لینے کو بھی تیار نہیں ہوتیں۔

اگر کوشش کر بھی لیں تو انہیں تمسخر و تضخیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نیز بڑھتی عمر کی خواتین کو دوران ملازمت زیادہ تر یہی شکایات رہتی ہیں کہ کم عمر خواتین یا مردوں کو زیادہ اہم کردار مثلاً مینجمنٹ، سیلز،مارکیٹنگ وغیرہ ملتے ہیں جبکہ عمر رسیدہ خواتین صرف آفس اسسٹنٹ، کلرک یا دیگر ماتحت کرداروں میں ہی رہتی ہیں خواہ ان کا تجربہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔

جیسے ہی خواتین کے چہرے پر سنجیدگی آنے لگتی ہے، کام کی جگہ پر خواتین کو اکثر 'نان پروموٹیبل' کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جسے 'آفس ہاؤس ورک' کہا جاتا ہے یعنی ایسے کام کرائے جاتے ہیں جن پر کوئی شاباش نہیں ملتی۔

بہت ساری ایجڈ خواتین کا گلہ ہے کہ جب وہ خوب دکھائی دیتی تھیں ان کے ذمے آفس کا انتظام و انصرام تھا لیکن جیسے ہی بالوں میں سفیدی آئی دفتری اوقات میں مہمانوں کی کافی بنانا، کھانا گرم کر کے باس کے سامنے پیش کرنا اور اپنے آفس کے برتن خود دھونا، جیسے ثانوی کام انہیں سونپ دیے جاتے ہیں۔

اگر عمر رسیدہ خواتین 'ایبسلوٹلی ناٹ' کا سائن دیتی ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ تم نان پروفیشنل، سخت مزاج اور مغرور ہو اس لیے تمہاری شادی نہیں ہوئی۔ آفس کی ساکھ پر ذرا سی آنچ آئے یا اونچ نیچ ہو تو دفتر کی عمر رسیدہ ملازم خواتین کا احتساب شروع ہوجاتا ہے اور سب سے پہلے انہیں نوکری سے برخاست کیا جاتا ہے یا بہانے بہانے سے ان کی ترقی روک دی جاتی ہے۔

پاکستان میں ایک چیز جو بڑھتی عمر کی خواتین کے لیے ڈپریشن کا بڑا سبب ہے وہ یہ کہ ان کی ٹرانسپورٹ تک رسائی کو ممکن نہیں بنایا جاتا۔ مجبوراً غیر محفوظ لوکل بسوں اور چنگچیوں پر انہیں مردوں کے ساتھ والی سیٹ پر سفر کرنا پڑتا ہے، اگر مردوں کے ساتھ نہ بیٹھنے پر استفسار کیا جائے تو کنڈکٹرز یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ 'تعجب ہے باجی! اس عمر میں لڑکی بن بن بیٹھنا زیب نہیں دیتا'۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر معاشرے میں خواتین کو عمر اور جنس کی دو دھاری تلوار کا سامنا یونہی برقرار رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ تعصب کی بنا پر سینیئر تجربہ کار خواتین فن اور مہارت اپنے جونیئرز کو منتقل کرنے سے گریز کریں گی۔ یوں جونیئرز میں انفارمیشن ہی بچے گی اور تجربہ نام کی چیز نہیں ہو گی۔ نتیجتاً ترقی پذیر ممالک مزید انحطاط اور جمود کا شکار ہو جائیں گے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 'ایج از جسٹ آ نمبر'، یعنی اگرانسان چاہے تو ہرعمرمیں خوش مزاج اور خوبصورت لگ سکتا ہے۔ یہ صرف اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ کیسا طرزِ زندگی اپناتا ہے۔

بڑھتی عمر کے ساتھ خواتین میں تبدیلیاں رونما ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن خواتین عمر کے معاملے میں حساس ہوتی ہے۔ انہیں اوور ایج کہہ کر ان کی قابل ذکر خدمات کو فراموش کر دینا ایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس سے احتراز ازحد ضروری ہے۔

ہمیں فرسودہ سوچ کو بدلنا ہو گا۔ عورت عمر رسیدہ ہو یا جوان اسے زندگی کے دن گن گن کر گزارنے کی بجائے انہیں کھل کر جینے کا حق دیا جائے ورنہ تصویرِ کائنات کا رنگ ناتمام رہے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔