1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے بائیڈن کا مکالمے پر زور

1 ستمبر 2022

امریکی صدر جو بائیڈن نے بغداد میں ہلاکت خیز سیاسی مظاہروں کے چند دن بعد عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی سے بات چیت کی ہے۔ فون کال پر انہوں نے سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے قومی سطح کے مذاکرات پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4GI5o
Irak nach al-Sadr Rücktritt eskaliert die Gewalt
تصویر: Hussein Faleh/AFP

امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 اگست بدھ کے روز عراق کے نگراں وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے ساتھ فون پر بات چیت کی۔ امریکی صدر نے عراقی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ملک میں مہینوں سے جاری سیاسی بحران کو ''قومی سطح کے مذاکرات'' سے حل کریں۔

گزشتہ برس اکتوبر میں عام انتخابات کے بعد سے حریف شیعہ دھڑوں کے درمیان کشیدگی کے سبب عراق ایک با ضابطہ حکومت کے بغیر ہے۔ گزشتہ ماہ وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اہم سیاسی رہنماؤں پر مشتمل مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ممتاز شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے ایران نواز اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

سیاسی بحران کی وجہ سے مقتدی الصدر کے حامی احتجاج کرتے رہے ہیں اور ان کی جانب سے  پُرتشدد مظاہروں کے چند دن بعد وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن اور کاظمی نے، ''سڑکوں پر سکیورٹی کی واپسی کا خیر مقدم کیا ہے اور تمام عراقی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ عراق کے آئین و قوانین کے مطابق آگے بڑھنے کے مقصد سے ایک مشترکہ راستہ اختیار کرنے کے لیے قومی بات چیت میں شمولیت اختیار کریں۔''

الصدر کا عراقی سیاست سے علیحدگی کا اعلان، بغداد میں کرفیو

 وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے مزید کہا کہ ''صدر نے اس ہفتے کے اوائل میں 24 گھنٹے تک چلنے والے پر تشدد مظاہروں اور کشیدگی کے دوران وزیر اعظم کاظمی کی ذاتی قیادت کی تعریف بھی کی۔''

Irak Bagdad | Proteste | Unterstützer von Muqtada al-Sadr
تصویر: Murtadha Al Sudani/AA/picture alliance

ایک نازک صورتحال

بائیڈن نے کہا کہ وہ ایک خود مختار اور آزاد عراق کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے یہ تبصرے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب 2003 میں امریکی حملے کے بعد سے عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔

پیر کو مقتدی الصدر نے سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ان کے حامیوں نے احتجاج کیا اور یہاں تک کہ مظاہروں کے دوران بعض افراد نے سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا۔

بغداد کے گرین زون میں حریف دھڑوں کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور 570  کے قریب زخمی ہو گئے۔ الصدر کے پیروکار اسی وقت پیچھے ہٹے، جب شیعہ عالم دین کی طرف سے امن اور سکون کی اپیل کی گئی۔

عراق کے سیاسی تجزیہ کار سجاد زیاد کا کہنا ہے کہ جب تک اس سیاسی بحران کا کوئی مناسب حل نہیں نکلتا، ایسے مزید پر تشدد مظاہروں کا خدشہ ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

عراق کی باہمت خواتین پیٹرولیئم انجینئرز