1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عجلت میں منظور ہوا قانون: سیاسی مفادات یا عدالتی اصلاح

عبدالستار، اسلام آباد
30 مارچ 2023

پاکستان کی سینیٹ نے بھی انتہائی عجلت میں اس بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سوموٹو کے حوالے سے اختیارات کو محدود کردیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4PVqj
Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

حکومت اس بل کی منظوری پر شادیانے بجارہی ہے جب کہ پی ٹی آئی نے اس بل کی سینیٹ میں بھرپور مخالفت کی اور مزید احتجاج اور قانونی جنگ کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس بل کے تحت اب آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کو اگر استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ اختیار صرف  چیف جسٹس کا نہیں ہوگا بلکہ ایک تین رکنی کمیٹی اس کا جائزہ لے گی، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ دو سینیئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریتی رائے سے ہوگا۔ سوموٹو یا از خود نوٹس والے مقدمات میں اپیل کا بھی حق دے دیا گیا ہے۔

حکومت اس قانون سازی کو سپریم کورٹ کو جمہوری بنانے سے تعبیر کررہی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت نے یہ بل انتہائی عجلت میں منظور کیا ہے اور اس کے پس پردہ سیاسی مفادات ہیں۔ مزید براں پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کی مخالفت کرے گی اور صدر مملکت بھی اس پر دستخط نہیں کرین گے۔

اس قانون کو اب دستخط کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجا جائے گا اور اگر انہوں نے دس دن میں اس پر دستخط نہیں کیا، تو یہ بل منظور ہی سمجھا جائے گا اور قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

واضح رہے کہ  قبل ازیں  اس بل کی قومی اسمبلی کی ایکم کمیٹی اور قومی اسمبلی نے منظوری دی تھی جب کہ وفاقی کابینہ نے بھی اس بل کی منظوری اٹھائیس مارچ کو دے دی تھی۔

عجلت میں منظور کیا گیا   

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ بل عجلت میں منظور کیا گیا ہے، جس کی پارلیمانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ قانون اپنے مفادات کے لیے منظور کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی بل مہینوں نہیں بلکہ برسوں پڑے رہتے ہیں لیکن اس بل میں عجلت دکھائی گئی ہے۔ یہ این آر او تھری ہے، جس کا مقصد نواز، گیلانی اور دوسرے کرپٹ ٹولے کو فائدہ پہنچانا ہے۔‘‘

پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے نیب افسر کی ہلاکت کا نوٹس

حالیہ مہینوں میں صدرعارف علوی نے حکومت کے کچھ قوانین پر اعتراضات کیے اور ان پر دستخط کرنے میں وقت لگایا۔ جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ صدر اب بھی ایسا ہی کریں گے۔ '' صدر مملکت اس قانون پر دستخط نہیں کریں گے اور اگر یہ قانون پاس بھی ہوگیا، تو ہم عدالت سے بھی رجوع کریں گے اور سیاسی طور پر بھی اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘

جماعت اسلامی کے تحفظات

پی ٹی آئی سمیت کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس بل میں بہت عجلت دکھائی گئی۔ چند ہی دنوں میں پارلیمانی کمیٹیوں اور دونوں ایوانوں نے اس بل کو منظور کر لیا۔ پارلیمنٹ میں اس پر بہت موثر بحث نہیں ہوئی۔ اس بل پر پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے 'رولز کو بلڈوز‘ کیا ہے۔ انہوں نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمنٹ غریبوں کے لیے قانون سازی نہیں کرتی۔ قوانین سیاسی مفادات اور اشرافیہ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بل کی ٹائمنگ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ بل صرف چند افراد کے لیے ہے اور اس پر بحث ہونی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ عدلیہ حکومتی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔ ''لیکن کیا اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کررہی؟‘‘

قانون مثبت ہے

تاہم پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ یہ قانون مثبت ہے اور یہ تاثر غلط ہے کہ اسے عجلت میں پاس کیا گیا ہے۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک کا کہنا ہے کہ اس بل پر غوروغوض کئی مہینوں سے ہورہا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوموٹو نے حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا اور سپریم کورٹ میں آمرانہ روایات کو پروان چڑھایا تھا۔ حکومت نے قانون بنا کر اسے جمہوری کر دیا ہے۔‘‘

پاکستان میں پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے کئی قوانین عدالتوں میں چیلنج ہوئے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جسٹس اجمل میاں کی عدالت نے فوجی عدالتوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ امکان ہے کہ اس قانون کو بھی عدلیہ کی طرف سے چیلنج کیا جائے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو حکومت اور عدلیہ میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔