1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عامر خان کے خلاف نفرت انگیزی ایک مہم ہے‘

5 اگست 2022

سپر ہٹ ہالی ووڈ فلم ’فارسٹ گمپ‘ کی آفیشنل بھارتی ری میک ’لال سنگھ چڈھا‘ ریلیز ہونے سے قبل ہی تنازعات کا شکار ہو چکی ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر اور سٹار اداکار عامر خان کو اپنی 'دیش بھگتی‘ ثابت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4FBpJ
China indischer Schauspieler Aamir Khan in Peking - Film "Dangal"
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/Niu Daqing

سن 1994 میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ کی فلم 'فارسٹ گمپ‘ کا بالی ووڈ ورژن 'لال سنگھ چڈھا‘ گیارہ اگست کو سینماؤں کی زینت بنے گا۔ اس بھارتی فلم کو رواں سال کی ایک اہم فلم قرار دیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ عامر خان کی دیگر فلموں کی طرح یہ پکچر بھی باکس آفس پر بڑا بزنس کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

تاہم 'لال سنگھ چڈھا‘ کی ریلیز سے قبل بالخصوص سوشل میڈیا پر عامر خان اور اس فلم کے خلاف ایک باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے، جس میں کٹر نظریات کے حامل انتہا پسند ہندو عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ یہ فلم دیکھنے کے لیے سینما گھروں کا رخ نہ کریں۔ قوم پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں یہ پہلا موقع نہیں کہ بالخصوص مسلم اقلیتی برادری کے اداکاروں اور فلم سازوں کو اس طرح دباؤ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

ٹوئٹر پر مہم

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ماہ سے اب تک اس فلم کے بائیکاٹ کے لیے دو لاکھ سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں، جن میں نریندر مودی کے حامیوں نے  BoycottLaalSinghChaddha# کا ٹرینڈ چلا رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عامر خان اور اس فلم کی مرکزی خاتون کردار کرینہ کپور کا بائیکاٹ کرنا دیش سے محبت کے اظہار کے مترادف ہے۔

’مودی کی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں‘

ستاون سالہ اسٹار عامر خان نے اس پراپیگنڈا کو منفی قرار دیتے ہوئے دہرایا ہے کہ انہیں اس امر کی ضرورت نہیں کہ وہ خود کو 'دیش بھگت‘ ثابت کریں۔ اس فلم کی نمائش سے قبل سوشل میڈیا پر عامر خان کے سن 2015 میں دیے گئے ایک ایسے انٹرویو کے کلپس بھی گردش کر رہے ہیں، جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ملکی سطح پر 'خوف کی فضا‘ ایسی ہے کہ ان کی اہلیہ اور انہوں نے بھارت چھوڑ کر کسی دوسرے میں ملک آباد ہونے کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔

عامر خان کا کہنا ہے کہ ان کی ماضی کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا، ''جب کوئی یہ یقین کرتا ہے کہ مجھے انڈیا پسند نہیں تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ براہ مہربانی میری فلم کا بائیکاٹ نہ کریں اور اسے دیکھنے سینما ضرور جائیں۔‘‘

’نفرت انگیزی پھیلائی جا رہی ہے‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک فلم ناقد نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''بے شک عامر خان کو ایک ایسے گروہ کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو نفرت انگیزی پھیلانا چاہتا ہے۔‘‘

فلم ناقد اور مصنفہ آنا ایم ایم ویٹیکاڈ کے بقول بھارت کی مسلم اور مسیحی برادریوں کو ہندوؤں کے ماتحت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقلیتی گروپوں کی توہین کی جا رہی ہے جبکہ ان سے یہ تقاضا بھی کیا جانے لگا ہے کہ وہ اپنا محب وطن ہونا ثابت کریں۔

ویٹیکاڈ نے بالی ووڈ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ بھارتی فلمی صنعت سے وابستہ زیادہ تر لوگ موقع پرست، بے حس یا خوف کا شکار ہیں، اس لیے موجودہ صورتحال میں بہتری کی توقع انتہائی کم ہے۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں کے سبب آہستہ آہستہ ایک انتہا پسندانہ بیانیہ بالی ووڈ میں سرایت کرتا جا رہا ہے حالانکہ سن دو ہزار چودہ  میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے قبل بالی ووڈ عالمی منظر نامے پر اپنی پہچان منوا لینے کے قابل ہو چکا تھا۔

ع ب / م م (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں