1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین سے انواع کی وسیع تر معدومیت کا چھٹا عمل: ہو گا کیا؟

12 جنوری 2022

دنیا پینسٹھ ملین سال بعد پہلی مرتبہ انواع کے ایک اور وسیع تر خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر انواع کی معدومیت سے کیا کچھ ممکن ہے؟

https://p.dw.com/p/45R5q
Südafrikaner protestieren gegen Shell-Ölbohrungen in unberührter Küstengegend
تصویر: Rodger Bosch/AFP/Getty Images

 

آج کے دور کا انسان 65 ملین سال بعد پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر خاتمے کے خطرات سے دوچار حیاتیاتی تنوع کے ناپید ہو جانے کے آغاز کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ زمین پر ماحول اور انسانوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ساڑھے چھ کروڑ سال گزشتہ بڑی معدومیت کے نتیجے میں کرہ ارض پر گھومتے ڈائنوسار ناپید ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اب سائنسدان ایسے ہی ایک اور عمل کے رونما ہونے سے خبردار کرتے ہوئے نشاندہی کر رہے ہیں کہ اس بار کی معدومیت حیاتیاتی تنوع کے بڑے پیمانے پر ناپید ہو جانے کا چھٹا واقعہ ہوگا۔ کرہ ارض پر انواع کی معدومیت کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ خود انسان بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں، رہائشی علاقوں میں رونما ہونے والی تبدیلی، فضائی آلودگی اور جدید طرز زراعت کا بھی اس عمل میں بڑا ہاتھ ہے۔

قدرتی آفات: دنیا کو2021 میں 280 ارب ڈالر کا نقصان

کس نوعیت کی معدومیت

بہت بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی یہ معدومیت تین ملین سالوں میں تمام حیاتیاتی انواع میں سے کم از کم تین چوتھائی کے ناپید ہو جانے کا سبب بنے گی۔ کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کی موجودہ رفتار سے یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر معدومیت کا یہ عمل چند صدیوں میں بھی مکمل ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق آئندہ چند دہائیوں کے دوران ہی کم از کم ایک ملین تک انواع کے مٹ جانے کا قوی امکان ہے۔ یہ اعداد و شمار دراصل 2019ء  میں شائع ہونے والی ایک تاریخی رپورٹ میں شامل ہیں تاہم بہت سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بھی دراصل حقیقی تعداد سے بہت کم ہو سکتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ زمین کا ماحولیاتی نظام ناقابل یقین حد تک پیچیدہ ہے۔ اسی لیے حیاتیاتی تنوع کی مکمل معدومیت کی پیش گوئی کی کوشش کسی نازک فن سے کم نہیں۔

Symbolbild I Japanischer Aal
کرہ ارض پر انواع کی معدومیت کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ خود انسان بھی ہیںتصویر: Billy H.C. Kwok/Getty Images

تحفظ خوراک کا فقدان

جنوبی آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کے گلوبل ایکالوجی کے پروفیسر کوری بریڈشا کے بقول، ''میرے خیال میں ہم سب سے پہلے خوراک کی سپلائی میں واضح کمی کے مسئلے سے دوچار ہوں گے کیونکہ ہماری خوراک کا زیادہ تر انحصار پولینیشن پر ہوتا ہے۔‘‘ پروفیسر  بریڈشا ریاضیاتی ماڈلز کی مدد سے انسانوں اور ماحولیاتی نظام کے درمیان تعامل کی وضاحت کرتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے بھی خطرہ

وہ کہتے ہیں، ''دنیا بھر میں خوراک کی فراہمی کے ایک تہائی حصے کا انحصار مکھیوں پر ہے۔ اگر یہ ناپید ہو جائیں تو زرعی پیداوار میں شدید کمی آ سکتی ہے۔‘‘ فصلوں کے کچھ کیڑے فصلوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں جس سے یک فصلی کاشت پر مزید اثر پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں افراد کی روٹی روزی کا انحصار جنگلی انواع پر ہے۔ خاص طور سے ساحلوں اور اندرون ملک ماہی گیری کرنے والوں کے لیے یہ انتہائی مشکل صورت حال ہے کیونکہ ان کی آمدنی جن حیاتیاتی انواع سے جڑی ہے، وہ تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں یا ان کی بقا شدید خطرے میں ہے۔

بریڈشا کے مطابق غذائی تحفظ کا یہ فقدان، جو بڑھتی ہوئی خشک سالی اور سیلابوں سے بھی جڑا ہو گا، غریب علاقوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا، خاص طور پر زیریں صحارا کے افریقی ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں کو۔

Black Friday 2021 | Extinction Rebellion Protest Tilbury
تحفظ ماحول کے لیے سرگرم عناصر اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: Ian West/PA Wire/dpa/picture alliance

زمین کی زرخیزی

مخصوص قسم کے یک خلیاتی جاندار اگر زندہ نہ رہے، تو ان کا خاتمہ زمین پر مٹی کے معیار پر گہرے منفی اثرات مرتب کرے گا۔ گرچہ ناپید ہونے والی حیاتیاتی انواع کے اعداد و شمار میں ان کا شمار حقیقت کے مقابلے میں بہت کم کیا گیا ہے، تاہم محققین کا خیال ہے کہ دیگر حیاتیاتی اقسام کے مقابلے میں یہ زیادہ تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں۔ پانی  یا ہوا کے عمل سے زمین کی سطح کا گھسنا مزید شدت اختیار کرے گا، جس کے نتیجے میں سیلاب زیادہ آئیں گے، زمین کی زرخیزی مزید کم ہو گی اور فصلوں کی نشو و نما اور زیادہ متاثر ہو گی۔

ماحولیاتی تبدیلیاں:  'ہم اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں‘

تحفظ فطرت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنزرویشن پالیسی مینیجر کولمن اؤ کریوڈین اس پیش رفت کو بہت خاص قسم کے خطرات کی موجب قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''نامیاتی مادہ ایک طرح سے اس گوند کی طرح ہے جو ہر چیز کو جوڑے رکھتا ہے۔ اگر آپ اسے کرسمس پڈنگ  کی طرح سمجھتے ہیں، تو اس میں کچھ خشک اجزاء بھی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ روٹی کا چُورا، آٹا اور خشک میوے۔ لیکن یہ پڈنگ انڈوں اور مکھن وغیرہ کی وجہ سے جمی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسے نرم ہونے کی وجہ سے کئی مختلف اشکال میں ڈھالا جا سکتا ہے۔‘‘

پانی کی قلت اور قدرتی آفات

دنیا کا بہت سا تازہ پانی گیلی زمینوں سے آتا ہے جو زندگی کے اس اہم ذریعے کو صاف اور دوبارہ تقسیم کے قابل بناتا ہے۔ مثال کے طور پر دریاؤں اور گیلی زمینوں سے حاصل شدہ پانی 'ہمالیائی پانی کے ٹاور‘ کو پانی فراہم کرتا ہے۔ یہ تقریباً دو ارب انسانوں کو پانی فراہم کرتا ہے۔

DW Eco India | Cooperative Forest 2
زمین خشک ہوتی جا رہی ہےتصویر: DW

اگر اس طرح کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے، تو اس کے اثرات کے باعث پھولوں اور پودوں کی کمی  واقع ہو جائے  اور انسان پینے اور زرعی استعمال کے لیے بہت سے پانی سے محروم ہو سکتے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بیماریوں میں بھی زبردست اضافہ

 

ایک اور اہم مسئلہ جنگلات کا کم ہوتے جانا ہے۔ بارش کا پانی بخارات میں منتقل  ہو رہا ہے اور اس تبدیلی کا امکان بڑھ رہا ہے۔ اس سے وہ عمل جس میں نمی کو بخارات کے ذریعے واپس فضا میں پہنچایا جاتا ہے، متاثر ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ زمین مزید خشک ہو جاتی ہے، جیسا کہ ایمیزون کے علاقے میں دیکھا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تخمینے کے مطابق 2015ء سے اب تک سالانہ تقریباً 10 ملین ہیکٹر یا 24 ملین ایکڑ پر پھیلے ہوئے جنگلات کاٹے جا چکے ہیں۔ دریں اثنا فصلوں کی ناکامی اور دیگر ماحولیاتی خطرات ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنیں گے کیونکہ لوگ قحط اور تیزی سے کم ہوتے ہوئے وسائل جیسے خطرات سے فرار چاہتے ہیں۔

وبائی امراض

اسٹاک ہوم میں قائم ریزیلیئنس سینٹر فار ریسرچ کے ایک ماہر کارل فولکے کا کہنا ہے کہ صنوبر کی ریزش اور گوند حیاتیاتی تنوع کے لیے ایک بفر کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کی قلت بہت سے ماحولیاتی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ فولکے کہتے ہیں، ''انسانوں نے پورے ایکو سسٹم کو ہی بہت کمزور بنا دیا ہے۔‘‘

کوئی بچہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچ نہیں سکتا، یونیسیف

DW Eco India | Lynx 1
جانوروں کی بہت سی اقسام ناپید ہوتی جا رہی ہیںتصویر: DW

ماہرین اور سائنس داں انتباہ کر رہے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان وبائی امراض کے بڑھتے ہوئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے کیونکہ جنگلی جانور اور انسان اپنے اپنے ماحولیاتی نظاموں کی تباہی اور قدرتی نظام میں خلل کے نتیجے میں ایک دوسرے سے قریبی رابطوں میں آ جاتے ہیں۔

حیاتیاتی انواع کے نقصان کا ازالہ

کیا ناپید ہوتی ہوئی حیاتیاتی انواع کے نقصان کا کوئی ازالہ کیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں تباہ کن پیش گوئیوں کے باوجود بہتری کی امید کی ایک کرن پائی جاتی ہے، جس کا دار و مدار انسانوں پر ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) سے منسلک ماہر ٹامس بروکس کا کہنا ہے، ''کبھی کبھی زمین پر زندگی کے تحفظ کے لیے ناقابل تسخیر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دوسری طرف کامیابی کی بہت سی متاثر کن کہانیاں بھی ہیں۔ ایسے واقعات کی مثالیں بھی ہیں، جہاں لوگ اس رجحان کو بدلنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘‘

بروکس کے بقول غلط حکمت عملی کے دھارے کو موڑنے یا رجحانات کو صحیح سمت میں لے جانے کی  کئی مثالیں موجود ہیں۔ بروکس اس وقت درپیش چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر عالمی سطح پر تحفظ ماحول کی کوششیں نہ کی جاتیں، تو 1993ء کے بعد سے اب تک ہونے والے نقصانات تین سے چار گنا زیادہ تک ہوتے۔ تحفظ ماحول کی کوششوں میں کامیابی کی داستانوں کو آگے بڑھانا چاہیے، جیسے کہ یورپ میں سگ آبی  کا دوبارہ تعارف حیاتیاتی تنوع کو ہونے والے نقصان کے خلاف جنگ میں کامیابی کی ایک بڑی مثال ہے۔

الیسٹیئر والش (ک م / م م)