1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طبقاتی فرق اور انفرادی ذمہ داری

22 اکتوبر 2021

ملک میں بڑھتی غربت اور طبقاتی تقسیم معاشرے کو کس طرح مختلف خانوں میں توڑ رہی ہے اور ایسے میں بطور فرد ہماری ذمہ داری کیسے بڑھ چکی ہے؟ بلاگ

https://p.dw.com/p/4214K
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

پاکستان میں شماریات کے سرکاری ادارے بیورو آف سٹیٹسکس کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں افراطِ زر کی شرح گزشتہ پانچ برس کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس کا براہ راست اثر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مہنگائی کی اس چکی میں پسنے والے غریب عوام  پر مزید مشکلات کا پہاڑ ٹوٹتا ہے اور وہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں جس کا نتیجہ  معاشرے میں معاشی طور پر امیر اور غریب طبقے کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ عمرانیات کے اصولوں کے مطابق کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار اس معاشرے کی مڈل کلاس کے اوپر ہوتا ہے۔  اس بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج سے مڈل کلاس  سکڑتی جا رہی ہے۔ اس بارے میں معاملات کی باگ ڈور مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھ میں ہونے کے باعث سب سے زیادہ ذمہ داری بھی انہی کے اوپر آتی ہے۔  باقی طبقے تو ویسے بھی ان کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی  روایات کو ٹھیک اور ماڈل سمجھتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں رائج بہت سے رویے اور اصول ملک میں بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔  جیسے اب آہستہ آہستہ سالگرہ کی تقریب اور ایک ولیمے میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے. صرف تزئین و آرائش ہی پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ۔ شادی بیاہ پر بے تحاشا خرچ، نہ ختم ہونے والی تقریبات اور کئی کئی روز تک چلنے والے فنکشن، کپڑے اور زیورات کے ساتھ ساتھ سجاوٹ اور فوٹوگرافی کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔یہ سب امیروں کے وہ شوق ہیں جنہوں نے نکاح اور رخصتی کو مشکل بنا دیا ہے اور بہت سے غریب گھروں کی بیٹیاں کبھی جہیز نہ ہونے کے سبب اور کبھی دھوم دھام سے شادی کرنے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے فریضے سے محروم رہتی ہیں۔ یہ روپے پیسے کی تشہیر معاشرے میں مقابلہ بازی، احساس کمتری اور برداشت میں کمی  پیدا کرتی ہے جو آگے چل کر بہت سے نفسیاتی مسائل کا سبب بنتی ہے اور اندھی تقلید  نچلے  طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتی ہے ۔

ان حالات میں کسی بھی قسم کے اچھے کام کی پہل کرنا اور معاشرتی اصراف کے رویوں سےکنارہ کشی اختیار کر کے سادگی کی طرف جانا ایک ایسا عمل ہو سکتا ہے جس کے دور رس نتائج  برآمد ہوں گے۔

 کچھ عرصہ قبل ایک نوبیاہتا جوڑا بہت مشہور ہوا جنہوں نے اپنی شادی بڑے پیمانے پر کرنے کی بجائے یتیم خانے کے بچوں کے  ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنے  کو ترجیح دی۔ ہمیں خود کا احتساب کرنا ہوگا اس بات سے قطع نظر کہ ہمارے آس پاس کے لوگ کس حد تک مادہ پرستی میں مبتلا ہیں۔

پاکستان میں مخیر حضرات کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ جس کا ثبوت ملک کے کونے کونے میں قائم مفت لنگرخانوں،سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود  فلاحی تنظیمیں  اور ایدھی سینٹر اور ایمبولینس کا دنیا کا سب سے بڑا نظام ہے۔ اور تو اور پاکستان جیسے غریب ملک میں ضرورت مند مریضوں کا مفت علاج مہیا کیا جاتا ہے،  ایک جدید کینسر ہسپتال بھی ہماری عوام کی دریا دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

آج کے دور میں بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف ڈگری کے حصول کی حد تک رہ گئی ہے۔گزرے وقتوں  میں ڈگری کو صرف نوکری کے حصول کے لیے ایک  ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور گھر اسکول اور مدرسہ میں ہر جگہ بچوں کی تربیت کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔ بدقسمتی سے مادہ پرستی کی دوڑ  میں بچوں کی پرورش میں تربیت کا پہلو بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور تعلیم کے نام پر صرف  ڈگری کا حصول سب پر سبقت لے گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سماج میں رائج رویوں اور اس سوچ کہ لوگ کیا کہیں گے، سے ہٹ  کر  انفرادی سطح پر ایسے قدم اٹھائے جائیں کہ جو معاشرے میں ایک مثال بن سکیں۔ اس خود احتسابی کا اطلاق نا صرف ہماری ذات پر بلکہ ہمارے گھر ،خاندان ،محلے ،دفاتر ، غرض یہ کہ روزمرہ  زندگی میں ہمارے اردگرد تمام تر معاملات پر ہونا چاہیے۔

 چند لوگوں کے انفرادی عمل سے شروع ہونے والی یہ تحریک اگر بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پورے معاشرے میں اس کے مثبت نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔  عبدالستار ایدھی مرحوم کی والدہ انہیں بچپن  میں دو آنے دیا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ بیٹا ایک آنا اپنے لیے اور ایک آنا کسی ضرورت مند پر خرچ کرنا۔  بچپن کی یہی تربیت اور دوسروں کا احساس رکھنے والی سمجھدار ماں کی یہ نصیحت اس بچے کے ذہن  پر ایسا اثر چھوڑ گئی  کہ آگے چل کر ایدھی ویلفیئر سینٹرز اورایمبولینس کا دنیا کا سب سے بڑا فلاحی نیٹ ورک قائم ہو گیا۔