1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

طالبان کے افغانستان کے دو برس: کیا بدلا، کیا نہیں؟

15 اگست 2023

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دو برس مکمل ہو گئے لیکن عالمی طاقتیں طالبان کو اعتدال پسندی اختیار کرنے پر قائل نہیں کر سکی ہیں۔ افغان عوام سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی نے انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4VBIg
Afghanistan Taliban Frauen Burka Essensverteilung
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

دو برس قبل پندرہ اگست کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والے طالبان نے دکھاوا کیا کہ وہ اپنے دوسری مدت اقتدار کے دوران اعتدال پسندی اختیار کریں گے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت کھل گئی کہ یہ انتہا پسند گروپ اپنے مذہبی اعتقادات میں کٹر پسندی پر برقرار ہی رہے گا۔

افغان عوام کا عالمی برداری سے شکوہ ہے کہ انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بالخصوص خواتین اور بچیاں طالبان کی پابندیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

مریم معروف نے ڈی ڈبلیو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ان کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ کابل کی رہائشی مریم نے کہا، ''ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہی ہوں۔ یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ گزشتہ دو سال کیسے گزرے۔‘‘

داعش کے حالیہ حملوں میں درجنوں پاکستانی ملوث، افغان طالبان

دوحہ میں امریکی اور طالبان نمائندوں کے مابین اہم مذاکرات

مریم ایک غیر سرکاری ادارہ چلا رہی تھیں۔ تاہم طالبان نے پندرہ اگست سن 2021 میں ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جہاں خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، وہیں مریم کا ادارہ بھی بند کرا دیا۔

افغان باکسر پاکستان میں ریڑھی لگانے پر مجبور

امریکی اور نیٹو افواج تقریبا دو دہائیوں تک افغانستان میں تعینات رہی تاکہ طالبان کی بغاوت کو کچلا جا سکے۔ تاہم آخر کار افغانستان سے غیر ملکی افواج کا اچانک اور غیر منظم انخلا اس وسطی ایشیائی ملک میں طالبان کے قبضے کی وجہ بن گیا۔

طالبان بدل گئے، یہ کیسے سوچا؟

مریم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ یہ نہیں سمجھ سکتی ہیں کہ یہ کیسے خیال کیا گیا کہ طالبان اپنی سوچ میں بدل چکے ہیں، ''ہمیں پہلے سے ہی علم تھا کہ اگر طالبان اقتدار میں آ گئے تو ہم سے سب کچھ چھن جائے گا۔‘‘

مریم کے بقول طالبان کے قبضے سے بیس دن قبل ہی خواتین کارکنان نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں عالمی برداری پر واضح کیا تھا کہ اگر یہ گروہ اقتدار میں آیا تو کیا ہو گا، ' لیکن کسی نے ہماری بات نہ سنی‘۔

سابق افغان نائب وزیر علیمہ علیمہ کا بھی یہی خیال ہے کہ طالبان کی سوچ نہیں بدلی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں علیمہ نے کہا کہ نوے کی دہائی میں طالبان کا اقتدار بھی ایسا ہی تھا، جیسا اس وقت ہے۔

افغانستان: طالبان نے آلات موسیقی جلانا شروع کر دیے

افغانستان: اگر برقعہ نہیں تو پھر ٹیکسی بھی نہیں ملے گی

علیمہ سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں وزارت برائے امن سے وابستہ تھیں جبکہ وہ افغان امن مذاکراتی عمل بھی شریک تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ دو برسوں میں طالبان نے خواتین پر مختلف قسم کی اکاون پابندیاں عائد کی ہیں۔

جنگ زدہ ملک سے نکلنے کی جلدی

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا براہ راست سلسلہ شروع کیا تھا۔ جرمنی میں مقیم علیمہ کے بقول اگر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں سابق افغان صدر اشرف غنی کی حکومت اور مقامی عمائدین کو بھی شامل کیا ہوتا تو اس وقت نتائج مختلف ہوتے۔

دوحہ مذاکرات کے تحت ہی انتیس فروری سن 2020 کو ایک ڈیل طے پائی تھی، جس کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان سے اپنی افواج واپس بلوانے کا ایک نظام الاوقات وضع کیا تھا۔

امریکی اتحادی افواج نے سن 2001 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرتے ہوئے وہاں ایک نئے جمہوری دور کے قیام کی کوشش شروع کی تھی لیکن جب یہ غیر ملکی افواج سن 2021 میں افغانستان سے نکلیں تو طالبان اس ملک پر ایک مرتبہ پھر قابض ہو گئے۔

ایسی ڈیل جس نے افغانستان کو مزید کمزور کر دیا

امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی وجہ سے طالبان کو عالمی سطح پر ایک نئی شناخت ملی۔ دوحہ ڈیل سے توقع تھی کہ وہ افغانستان میں قیام امن اور ایک نئے دور شادمانی کا باعث بنے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

دو سال گزر جانے کے بعد بہت سے ماہرین اب متفق ہو چکے ہیں کہ اس ڈیل نے افغانستان کو مزید کمزور بنا دیا ہے جبکہ افغان آرمی اور عوام کا مورال بھی بری طرح متاثر ہوا۔

طالبان نے افغانستان میں قائم ہزاروں بیوٹی پارلر بند کر دیے

افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر توجہ ہے، طالبان

آریانہ ریڈیو اور ٹی وی چینل کے سابق سربراہ خوشال آصفی کے بقول دو سال قبل اگست کے ماہ میں جو کچھ افغانستان میں ہوا، وہ دراصل افغان طالبان کی ملٹری فتح نہیں تھی بلکہ عالمی برداری کے سیاسی فیصلوں کی نتیجہ تھا۔

خوشال آصفی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ کسی کو علم نہ تھا کہ طالبان کے ساتھ  دوحہ میں جاری مذاکرات میں کیا کیا موضوعات زیر بحث ہیں، ''بس ایسا لگتا تھا کہ مغربی طاقتوں نے کابل حکومت کی حمایت کا سلسلہ ترک کر دیا تھا۔‘‘ آصفی کو جان بچانے کی خاطر افغانستان سے فرار ہونا پڑا۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن مریم معروف کا بھی کہنا ہے کہ اب تو افغان عوام بس یہی سوچ رہے ہیں کہ اس ملک سے فرار ہو کر امن کی تلاش کیسے ہو سکتی ہے۔

اس ناامیدی کے باوجود مریم کا اصرار ہے کہ افغان سول سوسائٹی بے شک ملک میں رہے نہ رہے لیکن وہ اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں جمہوری اقدار کے لیے جدوجہد کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

شبنم فان ہائن (ع ب / ع ت)

سابق افغان خاتون وکیل کو پاکستان میں جان کا خطرہ