1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتافغانستان

افغان طالبان غیر ملکی سیاحوں کی تلاش میں

5 مئی 2024

افغانستان آنے والے غیرملکی سیاحوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان آنے والے غیرملکی سیاحوں کا تعلق کس ملک سے ہے اور طالبان سیاحت کے فروغ کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

https://p.dw.com/p/4fOuU
 بامیان میں بند میر جھیل
گزشتہ برس تقریباً 7000 غیرملکی سیاح افغانستان آئےتصویر: DW/Z. Ahmady

دارالحکومت کابل کے ایک کلاس روم میں تقریباً 30 طلبہ موجود ہیں، جو طالبان کے زیر انتظام چلنے والے انسٹی ٹیوٹ میں سیاحت اور مہمان نوازی کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تمام طلبہ مرد ہیں اور ان کی عمروں، تعلیمی سطح جبکہ پیشہ ورانہ تجربے میں بھی فرق ہے۔

جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں، تب سے افغان خواتین پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے اور وہ سیاحت یا مہمان نوازی کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی ہیں۔

تاہم اس کلاس روم میں موجود تمام طلبہ افغانستان کے مختلف پہلوؤں کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں جبکہ طالبان بھی ان کی مدد کرنے پر خوش ہیں۔

عالمی سطح پر افغانستان تنہائی کا شکار ہے اور ایسا زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس ملک کی معیشت بحران کا شکار ہے، بنیادی ڈھانچہ ناقص ہے جبکہ غربت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ

لیکن اس ملک میں ایک تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ پرتشدد واقعات میں کمی اور دبئی جیسے ایئرپورٹس کے ساتھ رابطوں میں اضافے کی وجہ سے غیرملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ برس تقریباً 7000 غیرملکی سیاح افغانستان آئے
گزشتہ برس تقریباً 7000 غیرملکی سیاح افغانستان آئےتصویر: Gulrahim Niazman

افغانستان آنے والے سیاحوں کی تعداد کچھ زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس ملک کی سیاحت کی حوالے سے گونج سنائی دے رہی ہے۔ سن 2021 میں صرف 691 غیر ملکی سیاحوں نے اس ملک کا رخ کیا تھا۔ سن 2022 میں یہ تعداد 2300 کے قریب تھی جبکہ گزشتہ برس تقریباً 7000 غیرملکی سیاح افغانستان آئے۔

کابل میں ٹورازم ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد سعید کے مطابق جغرافیائی قربت اور بڑی آبادی کی وجہ سے افغانستان کے لیے غیر ملکی سیاحوں کی سب سے بڑی منڈی چین ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کو اپنے بعض پڑوسیوں پر بھی برتری حاصل ہے، ''سیاحوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پاکستان نہیں جانا چاہتے کیونکہ وہاں خطرہ ہے اور ان پر حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ جاپانی سیاحوں نے خود یہ بات مجھے بتائی اور یہ ہماری سیاحت کے لیے اچھی خبر ہے۔‘‘

افغانستان کی سیاحت میں حائل رکاوٹیں

افغانستان کی سیاحت کے لیے سب کچھ ٹھیک بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ویزوں تک رسائی مشکل اور مہنگی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد بہت سے ممالک نے افغانستان سے تعلقات منقطع کر لیے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک ان کی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتے۔ مغربی ممالک میں موجود سفارت خانوں کے سابقہ عملے اور طالبان کے مابین ابھی تک کشمکش جاری ہے۔

محمد سعید نے اعتراف کیا کہ افغان سیاحت کی ترقی میں رکاوٹیں ہیں لیکن وہ ان پر قابو پانے کے لیے مختلف وزارتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان کا حتمی مقصد یہ ہے کہ سیاحوں کے لیے آمد پر ویزہ متعارف کروایا جائے لیکن اس میں ابھی برسوں لگ سکتے ہیں۔

افغانستان کو سڑکوں کا نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور زیادہ تر ایئرلائنز ابھی تک افغان حدود استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔ سب سے زیادہ بین الاقوامی پروازیں دارالحکومت کابل میں آتی ہیں لیکن کسی بھی افغان ہوائی اڈے کا چین، یورپ یا بھارت جیسی بڑی سیاحتی منڈیوں کے ساتھ براہ راست روٹ موجود نہیں ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لیے طالبان کے اقدامات

ان تمام تر مسائل کے باوجود محمد سعید چاہتے ہیں کہ افغانستان سیاحت کا پاور ہاوس بن جائے اور لگتا یوں ہے کہ انہیں طالبان کی اعلیٰ قیادت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ محمد سعید کا کہنا تھا، ''مجھے بزرگوں (وزراء) کی ہدایت پر اس محکمے میں بھیجا گیا ہے۔ انہیں مجھ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے ہی مجھے اس اہم مقام پر بھیجا ہے۔‘‘

سیاحت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی بھی یہی خواہش ہے۔ احمد مسعود افغانستان کے خوبصورت مقام تلاش کرتے ہوئے انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر ملک کی نمائندگی چاہتا ہے۔ اسی طرح بزنس اسکول گریجویٹ سمیر احمد زئی اپنا ایک ہوٹل کھولنے کے خواہشمند ہیں۔ تاہم کلاس میں موجود تمام طلبہ پہلے سیاحت اور مہمان نوازی کے بارے میں سیکھنا چاہتے ہیں۔

گزشتہ برس تقریباً 7000 غیرملکی سیاح افغانستان آئے
گزشتہ برس تقریباً 7000 غیرملکی سیاح افغانستان آئےتصویر: Nasim Seyamak

احمد زئی کا کہنا تھا، ''لوگوں نے یہی سن رکھا ہے کہ افغانستان پسماندہ ہے، وہاں غربت اور جنگ ہے لیکن ہماری 5000 سالہ تاریخ ہے اور اب افغانستان کا نیا باب کُھلنا چاہیے۔‘‘

اس کورس میں افغان دستکاری اور بشریات کی بنیادی باتیں شامل ہیں۔ ایک غیر سرکاری موضوع یہ ہے کہ غیر ملکی خواتین کے ساتھ کس طرح بات چیت کی جائے اور ان کا برتاؤ یا عادات مقامی رسم و رواج اور احکام سے کیسے متصادم ہو سکتی ہیں۔

مقامی خواتین کے لیے تو طالبان کی پابندیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت ہو رہی ہیں لیکن غیرملکی خواتین کے لیے گنجائش پیدا کی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ملک کے واحد فائیو اسٹار سرینا ہوٹل میں کئی مہینوں کی بندش کے بعد خواتین کا سپا اور سیلون دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ تاہم یہاں کسی خاتون کو پاسپورٹ دیکھ کر ہی داخل ہونے دیا جائے گا جبکہ مقامی افغان خواتین کا داخلہ ممنوع ہے۔

دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ میں بھی کوئی خاتون نہیں ہے۔ وزارت سیاحت کے ایک اہلکار کا انتقامی کارروائیوں  کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ''یہ ایک دل دہلا دینے والی صورتحال ہے۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کے اہلخانہ بھی پوچھتے ہیں کہ آیا ان کی بیٹیاں یہاں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں؟ لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ وہ خواتین، جو (قبضہ) سے پہلے تعلیم حاصل کر رہی تھیں کبھی واپس نہیں آئیں، وہ کبھی فارغ التحصیل نہیں ہوئیں۔‘‘

ا ا / ش ر (اے پی)