1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صرف کشمیر ہی نہیں: ’تم تو ہم سے بھی گئے گزرے نکلے‘

23 فروری 2019

میں سمجھا تھا کہ یہ صرف پیارا پاکستان ہے جہاں سوشل میڈیا پر محض کسی پوسٹ پر ’لائیک‘ کا بٹن دبانے پر بندہ غائب ہو جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3DxOM
Indien Hindu-Nationalisten fordern den Bau eines Tempels
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

لیکن دنیا کی خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا سیکولر انڈیا بھی اس میں ہم سے کیوں ہرگز پیچھے رہے؟ جس طرح اب بھارتی پنجاب کے ایک شہر میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کے فیس بک پر لفظ خالصتان والی پوسٹ کو ’لائیک‘ کرنے سے نوجوان کی گرفتاری واقع ہوئی ہے۔

کشمیر میں جو آج کل ہو رہا ہے، وہاں کی خبریں دیکھ کر بس فہمیدہ ریاض یاد آتی ہیں جنہوں نے بھارت کے اپنے دورے کے دوران ایک مشاعرے میں اپنی  وہ نظم پڑہی  تھی ’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘ جس پر بھارت کے جنگی جنون پسندوں اور انتہاپسند بھارتی قوم پرستوں نے اس بیچاری شاعرہ اور اس کی نظم کے خلاف ایک حشر بپا کردیا تھا۔ لیکن آگے بھی فہمیدہ ریاض تھیں، جو اپنے ملک کے حکمرانوں اور انتہاپسندوں کے ہاتھوں زچ نہ ہوسکیں، وہ بھلا کہاں بھارتی جنگ بازوں اور بھارتی طالبان ذہنیت کے آگے اپنے قلم کا ہتھیار پھینک دیتی؟

لیکن صرف کشمیر ہی نہیں جہاں کشمیری، کل کے پاکستان میں مشرقی بنگالی یا آج کے میانمار میں (جسے میں آج بھی برما ہی بولتا ہوں کہ میانمار ہے کہ زباں پر چڑھتا ہی نہیں) روہنگیا۔

ایسے آج کے بھارت میں بہت کچھ کشمیریوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اتنا کچھ کہ اب فاروق عبداللہ جیسے کشمیری رہنما (جنہیں کئی کشمیری ان کی وزارت اعلی کے دنوں میں  ’کٹھ پتلی وزیر اعلی‘ کہتے تھے) بھی ایک بھارتی صحافی کو اس بات پر ڈانٹ رہے تھے کہ کشمیر میں ہونے والی ہر گھٹنا کا الزام پاکستان پر دھرنا صحیح نہیں، کچھ اپنے گریبان میں بھی جھانکو جہاں گھر گھر سے کشمیری بچے جہادیوں کے ساتھ جا رہے ہیں۔

میں کل سوشل میڈیا پر شاید یوپی کے ایک شہر کے ایک گائوں کی وڈیو دیکھ رہا تھا جہاں جلوس نکال کر مظاہرین لاؤڈ اسپیکر پر محلے والوں کو متنبہ  کر رہے تھے کہ فلاں تاریخ تک وہ اپنے محلے سے کشمیریوں کو نکال دیں، ورنہ اس تاریخ کے بعد نتائج کے ذمہ دار اہل محلہ اور وہ مکانوں کے مالکان ہوں گے، جہوں نے کشمیریوں کو مکان کرایے پر دے رکھے ہوں گے۔

مجھے انڈین فلم ’مظفرنگر زندہ ہے‘ یاد آگئی۔ یعنی اگر کشمیر واقعی انڈیا کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے تو پھر یوپی میں کشمیریوں کو کیوں نہیں رہنے دیا جاتا؟ کیوں ان کے لیے زندگی تنگ اور دھرتی تانبہ  کی جا رہی ہے؟ صرف کشمیر ہی کیا بھارتی پنجاب میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔

 حالیہ دنوں ایک تاریخی مضحکہ گاندھی جی کے بھارت کے پنجاب میں یہ ہوا ہے کہ مشرقی پنجاب کے نواں شہر کی ایک عدالت نے تین سکھ نوجوانوں کو محض پمفلیٹ رکھنے پر عمر قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان تین نوجوانوں اروندر سنگھ (عمر انتیس سال)، سرجیت سنگھ (عمر ستائیس سال) اور رنجیت سنگھ (عمر انتیس سال) کا تعلق نواں شہر، ہریانہ اور گورداسپور سے ہے۔ ان کی تحویل سے مبینہ طور ’خالصتان‘ کے بارے  پوسٹرز اور دیگر اشاعتی مواد برآمد ہوا جس کو بھارتی استغاثہ نے اور متعلقہ جج نے ’ریاست کیساتھ جنگ‘ قرار دیتے ہوئے ان تینوں کو عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ بالکل ایسے جیسے پاکستان کے گلگت بلتستان میں بائیں بازو کے ایک سرگرم کارکن ’بابا جان‘ کو محض پمفلیٹ لکھنے یا شایع کرنے پر ’خصوصی عدالت برائے انسداد دہشت گردی‘ نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ پھر وہی بات کہ ’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘۔

Hasan Mujtaba
نیویارک میں مقیم حسن مجتبیٰ ڈی ڈبلیو اردو کے لیے بلاگ لکھتے ہیںتصویر: Privat

لیکن آج کے خود کو سیکیولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت (جو کہ ایک حد تک ہے بھی) نے ان تین سکھ نوجوانوں کو ’ریاست سے جنگ‘ کے ڈھکوسلہ الزامات پر یوں سزا دی ہے جیسے تقسیم سے قبل انگریز سرکار گاندھی اور دیگر آزادی پسندوں کو اس طرح کی سزائیں دے کر انہیں کالا پانی ( جزائر انڈمان) جیسے مقامات پر جیلوں میں بھیجا کرتی تھی۔ ان تینوں نوجوانوں کے پاس سے نہ تو کبھی اسلحہ برآمد ہوا، نہ وہ کوئی پرتشدد کاروائیوں میں ملوث پائے گئے، نہ تو تشدد کے پرچار میں پر ’خالصتان تحریک‘ کے پوسٹر بر آمد ہونے پر جیل اور پھر عمر قید۔

ادھر پھر رودارپور میں ایک اٹھارہ  سالہ  نوجوان  کیلاش چندرا بھٹ کو کو بھی محض اس بات پر گرفتار کرلیا گیا کہ اس نے فیس بک پر خالصتان تحریک کے بارے میں ایک پوسٹ کو ’لائک‘ کر کے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ یعنی کہ ہماری طرف پشتون تحفظ موومنٹ والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا جار ہا ہے جو ’خالصتان تحریک‘ کے نام پر سکھ نوجوانوں کے ساتھ ان دنوں ننانوے تک کی گنتی لے جاکر پھر ایک کے ہندسے سے شروع کیا جا رہا ہے۔

چلو بھارت اور پاکستان کا ایک خوف تو فوبیا کی حد تک مشترک ہوا اور وہ ہے ’سوشل میڈیا کا خوف‘۔ خوشونت سنگھ ہوتے تو بھارتی حکومت کے ایسی ’دیش بھگت عقل‘ کے ضرور لتے لیتے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس صحرا میں ابھی سب مور مر گئے ہیں۔ یا کہ سوچ کی سب دھارائیں خشک ہوچکیں۔ بھارت کے قانودان گوتم بھاٹیا نے دی ہندو میں اپنے ایک مضمون میں لکھا، ’’ایڈیشنل سیشن جج کا یہ سڑسٹھ صفحات پر مشتمل  فیصلہ اپیل ہونے پر صحیح قوانین کے آگے کھڑا نہ ہو پائے گا اور اپیل سننے والی عدالت کو یہ ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ محض کتابیں پڑھنے، مصوری کرنے یا فیس بک کر کچھ پوسٹ کرنے پر جمہوریتیں شہریوں کو جیل نہیں بھیجا کرتیں۔‘‘

تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی

وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن، جس میں ہم نے صدی گنوائی

آخر پہنچی دوار توہارے، ارے بدھائی بہت بدھائی

نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔